نوجوان کھلاڑی پاکستان کرکٹ کا مستقبل!

1 1,135

پاکستان کرکٹ کا یہ ہمیشہ سے خاصا رہا ہے کہ یہاں کم عمری میں ہی کھلاڑیوں کو انٹرنیشنل کرکٹ کے میدانوں میں اتار دیا جاتا ہے۔مشتاق محمد سے لے کر حسن رضا تک پاکستان نے ہر دور میں کم عمر کھلاڑیوں کو انٹرنیشنل کرکٹ میں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع دیا ہے مگر کچھ عرصہ قبل یہ سلسلہ عارضی طور پر بند ہوگیا تھا کیونکہ جب 2010ء میں مصباح الحق نے قومی ٹیم کی کپتانی سنبھالی تو پاکستانی ٹیم میں ’’پکی عمر‘‘ کے کھلاڑیوں کو کھلانے کا رواج بڑھ گیا اور ’’ٹین ایجرز‘‘ کی انٹرنیشنل کرکٹ تک رسائی کسی حد تک دشوار ہوگئی۔جب قومی ٹیم میں 30برس سے زائد عمر کے کھلاڑیوں کا راج ہوگیا تو ماہرین کو یہ ’’تشویش‘‘ ہونا شروع ہوگئی کہ ’’بوڑھے‘‘ کھلاڑیوں کی رخصتی کے بعد پاکستان کرکٹ کا مستقبل تاریک ہوسکتا ہے ۔

مصباح، یونس، شاہد، سعید اور عرفان جیسے کھلاڑیوں کے متبادل تیار کرنا نہایت ضروری ہے (تصویر: AFP)
مصباح، یونس، شاہد، سعید اور عرفان جیسے کھلاڑیوں کے متبادل تیار کرنا نہایت ضروری ہے (تصویر: AFP)

ماضی میں جہاں ٹین ایج کرکٹر ز نے پاکستان کرکٹ کیلئے کارہائے نمایاں انجام دیے وہیں بہت سے ایسے کھلاڑی بھی ہیں جو ڈومیسٹک کرکٹ کاتجربہ نہ ہونے کے باعث اور وقت سے پہلے کھلا دینے کے باعث گمنامی کی داستان بن گئے۔پاکستان کرکٹ میں اب یہ روایت کسی حد تک ختم ہوگئی ہے کیونکہ 2010ء میں جب اسد شفیق، اظہر علی اور عمر امین نے پاکستان کیلئے ڈیبیو کیا تو یہ کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ میں کچھ وقت گزارنے کے بعد پختگی کے مراحل طے کررہے تھے۔اس کے بعد جنید خان ، عدنان اکمل،حارث سہیل، انور علی،بلاول بھٹی،صہیب مقصود، شرجیل خان اور شان مسعودایسے نام ہیں جو ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کے بعد پاکستانی ٹیم تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ان کھلاڑیوں کو محض پسندیدگی یا جونیئر کرکٹ میں اچھی کارکردگی دکھانے کے بل پر پاکستانی ٹیم کا حصہ نہیں بنایا گیا بلکہ جونیئر کرکٹ سے نکلنے کے بعد ان تمام کھلاڑیوں نے ڈومیسٹک کرکٹ میں چند اچھے سیزن کھیل رکھے ہیں جس کے بعد انہیں پاکستان کی نمائندگی کا موقع دیا گیا ہے۔

گزشتہ دو برسوں کے دوران تینوں فارمیٹس میں مجموعی طور پر 13کھلاڑیوں کو پاکستان کی گرین کیپ دی ہے اور ان میں سے زیادہ تر کھلاڑی اب بھی کسی نہ کسی فارمیٹ میں قومی ٹیم کیساتھ وابستہ ہیں اور موقع ملنے پر اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں چند سال گزار کر پاکستانی ٹیم تک رسائی حاصل کرنے والے ان کھلاڑیوں کی تکنیک کو بے عیب نہیں کہا جا سکتا ۔بیٹسمینوں کے تکنیکی مسائل بھی ہیں جبکہ بالرز کے نقائص بھی واضح ہیں کیونکہ پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ کا جو معیار ہے اس میں کھلاڑیوں کی تکنیکی خامیاں دور ہونا کافی مشکل ہے جبکہ نیشنل کرکٹ اکیڈمی جو ’’خدمات‘‘ انجام دے رہی ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے مگر اس کے باوجود یہ تمام کھلاڑی نہایت باصلاحیت ہیں جن میں خامیاں ضرور ہیں لیکن ان خامیوں کو دور کرکے ان کھلاڑیوں کو مستقبل کیلئے کارآمد بنایا جاسکتا ہے کیونکہ مصباح الحق، یونس خان، شاہد آفریدی، سعید اجمل، عبدالرحمن، محمد عرفان،ذوالفقار بابر ایسے نام ہیں جو بہت زیادہ عرصہ تک انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیل پائیں گے اور ان کھلاڑیوں کے متبادل تیار کرنا نہایت ضروری ہے۔

اوپر جن کھلاڑیوں کے نام لیے گئے ہیں وہ تجربے اور مہارت میں یقینا پاکستان کے سپر اسٹارز سے کم تر ہیں مگر 2013ء کا سال یہ نوید سنا کر جارہا ہے کہ پاکستان کرکٹ کا مستقبل یقینی طور پر محفوظ ہاتھوں میں ہے کیونکہ ان دو برسوں میں پاکستان کیلئے ڈیبیو کرنے والے کھلاڑیوں کیساتھ ساتھ پاکستان کو احمد شہزاد، جنید خان، عمر اکمل جیسے نوجوان کھلاڑیوں کی خدمات بھی حاصل ہیں جو کچھ عرصے سے انٹرنیشنل کرکٹ میں موجود ہیں اور 2013ء کے سال میں ان کھلاڑیوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوایا ہے خاص طور پر احمد شہزاد اور جنید خان کیلئے یہ سال کافی بہتر رہا۔ کچھ ہفتے پہلے یہ ’’پراپیگنڈا‘‘ شروع ہوگیا تھا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کا کال پڑ چکا ہے اور یہی پندرہ بیس کھلاڑی ہیں جو پاکستان کرکٹ کا بوجھ اپنے کندھوں پر اُٹھا سکتے ہیں لیکن نوجوان کھلاڑیوں نے ثابت کردیا ہے کہ پاکستان کرکٹ کا مستقبل ہرگز تاریک نہیں ہے بلکہ یہ کھلاڑی آنے والے عرصے میں اپنی صلاحیتوں کو مزید بناتے ہوئے پاکستان کرکٹ کو بلند مقام پر لے جانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔