اقتدار کی ترقی، اقدار کی تنزلی
سید صفوان غنی، بھارت
پرانی قدروں سے انحراف کے کئی اسباب ہوتے ہیں، ایک تو یہ کہ انسان ان اقدار کو نظام کا حصہ ہونے کے قابل نہیں سمجھتا جبکہ دوسری وجہ یہ کہ اس نظام کے چند بااختیار افراد غیر معمولی طاقت کے مالک ہوجاتے ہیں اور اس نظام کواپنی مرضی کے مطابق چلانے کے متمنی ہوتے ہیں۔ نتیجتاً پورا انتظامی ڈھانچہ ان افراد کی منشا کے مطابق تبدیل ہوجاتا ہے۔
اس کی سب سے بہترین مثال ہندوستان کا کرکٹ بورڈ ہے جس نے لامحدود اختیارات حاصل کرنے کے ذریعے دنیائے کرکٹ پر ویسی ہی حکومت کا خواہاں ہے جیسی دنیائے سیاست پر امریکہ کوحاصل ہے۔ یوں تو اس کا احساس کرکٹ کے ماہرین کو چند سال قبل ہی ہونا شروع ہوگیا تھا تاہم گزشتہ دنوں ایک منصوبے کا ابتدائی خاکہ پیش کرنے جانے کے بعد یہ گمان و خدشات یقین میں تبدیل ہوگئے ہیں۔
اس بات سے تو سبھی اتفاق رکھتے ہیں کہ دنیا بھر میں کرکٹ کے سب سے زیادہ شیدائی ایشیائی ممالک خصوصاً ہندوستان میں بستے ہیں اور کسی بھی شے کی مقبولیت کا لازمی نتیجہ آج کے دور میں اس کی کمرشلائزیشن ہے۔یہی معاملات ہندوستان میں کرکٹ کے ساتھ ہوا۔ اس کھیل کی بے پناہ مقبولیت نے اسے منڈی میں لاکھڑا کردیا ہے جہاں اس کے بے شمار خریدار منہ مانگی قیمت دینے کو تیاربیٹھے ہیں۔ بورڈ کے عہدیداروں، کھلاڑیوں، میڈیا اور ساتھ ساتھ اشتہاری کمپنیوں نے بھی کرکٹ سے بے دریغ پیسہ بنانا شروع کیا اور اسے کرکٹ کی تجدید کاری اور ترقی سے تعبیر کیا جانے لگا حالانکہ یہ ترقی کھیل کی بہتری کی سمت میں نہیں بلکہ معاشی ترقی تھی جس کے لیے تمام اخلاقی پاس و لحاظ کو پس پشت رکھتے ہوئے دولت کی رمق دمق، چکاچوند اور گلیمر کو اختیار کیا گیا۔ دور حاضر استعماری قوتوں کا دور ہے جس میں جس کے پاس زیادہ دولت ہے وہی سب سے زیادہ بااثر ہے۔
بھارتی کرکٹ بورڈ (بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا) جو ہندوستان میں کرکٹ کی نگرانی پر معمور ادارہ ہے، اس نے اتنی دولت کمائی جس کا انسانی تخیل کے کسی گوشے میں سمانا ممکن نظر نہیں آتا۔ اس دولت نے اسے اتنا بااختیار بلکہ ’’بے اختیار‘‘کردیا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر کرکٹ کے معاملات چلانے والا ادارہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) بھی اس کے سامنے بونا ہوگیا ہے۔ اتنی زیادہ قوت کا مالک ہونے کے بعد بھلا کوئی انکساری کا ثبوت پیش کرے اور سبھی کی بھلائی کی بات کرے، یہ آج کے دور میں تقریباً ناممکن ہی ہے۔ بی سی سی آئی نے بھی وہی جو جو غالب قوم مغلوب کے ساتھ عموماً و اکثر کرتی ہے۔ سب سے پہلے تو آئی سی سی پر اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کرنا شروع کیا اور آخر کار جس چیز چاہت تھی وہ ایک مسودے کے طور پر پیش کردی۔ جب چہار سو سے اس مسودے پر ناپسندیدگی کا اظہار شروع ہوا تو تو اس میں چند ترامیم کرکے نئے اور خوشنما مواد کے ساتھ آگے بڑھا دیا گیا جس میں ٹیسٹ کرکٹ کےوجود کو ڈھال کر کرکٹ پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی خفیہ سازش کام کررہی تھی۔
بی سی سی آئی کے ساتھ آسٹریلیا اور انگلستان کے کرکٹ بورڈز بھی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ دنیائے پر تین ’’ سپر پاورز ‘‘ایک ساتھ۔ اس پورے عمل کی بڑی اچھی وضاحت ہندوستان کے مشہور و معروف کالم نویس پردیپ میگزین نے ان الفاظ میں کی ہے۔
Implicit in this is the threat that no one has a choice but to agree to what they (the big three) are proposing.
اب اگر ان تین ممالک کی جارہ داری قائم ہوجاتی ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ سارے فیوچر ٹورز پروگرام یہی طے کریں گے اور غالب گمان یہی ہے کہ ایسی صورت میں کرکٹ کے یہ ’تین سپر پاورز‘ ہی آپس میں کرکٹ کھیلتے رہیں گے تاکہ ان کی دولت میں اضافہ ہوتا رہے ۔باقی ممالک ان کی ’نظر ِکرم ‘کی آس میں ہی رہیں گے ۔
ایسے موقع پر راستہ یہی نظر آتا ہے کہ باقی ممالک اپنا ایک الگ گروپ بنائیں اور آئی سی سی میں سخت احتجاج درج کروائیں لیکن یہ ہونا تو فی الوقت ناممکن لگتا ہے کیونکہ نیوزی لینڈ نے کرکٹ کے ان نئے ’آقاؤں ‘ سے ہاتھ ملا لیا ہے۔سری لنکا کا معاملہ ’کعبہ میرے پیچھے ہے، کلیسامرے آگے‘ کے مصداق ہے۔
جنوبی افریقہ کارکردگی کے لحاظ سے تو مضبوط ملک ہے لیکن اس کا بین الاقوامی کرکٹ پر اتنا اثرورسوخ نہیں۔ پاکستان اپنے اندرونی انتظامی معاملات کی وجہ سے مفلوج ہوکر رہ گیا ہے، پھر بھی چونکہ ہندوستان کا معاملہ ہے اس لیے اس کی طرف سے زبردست مخالفت کی امید کی جا سکتی ہے۔
کرکٹ کے اس غیر متوازی ہوتے نظام کو توازن بخشنا اب ان لوگوں کی ذمہ داری ہے جو کرکٹ کی بقا اور اس کے وجود کے لیے سنجیدہ ہیں۔ اکر ایسا نہیں کرتے تو ٹیسٹ کرکٹ کا کرکٹ کا پورا وجود ہی خطرے میں نظر آتا ہے ۔