بگ تھری معاملہ، نجم سیٹھی کی ذکا اشرف پر تنقید

1 1,044

پاکستان میں روایتی سیاست کی طرح چیئرمین کرکٹ بورڈ بھی کھٹائی میں پڑجانے والے معاملات کے الزامات "گزشتہ دور حکومت" پر لادتے دکھائی دے رہے ہیں اور 'بگ تھری' کے متنازع معاملے پر ہتھیار ڈالنے کے بعد انہوں نے نہ صرف یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے پی سی بی کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے بلکہ یہ تک کہہ ڈالا ہے کہ گزشتہ چیئرمین ذکا اشرف بدلتی ہوئی ہواؤں کا درست اندازہ نہیں لگا سکے اور اس کی وجہ سے پاکستان اس معاملے سے اتنے فوائد نہیں سمیٹ پایا، جتنے کہ حاصل کرنے چاہیے تھے۔

نجم سیٹھی نے چند روز قبل آئی سی سی کے بورڈ اجلاس میں شرکت کی تھی (تصویر: ICC)
نجم سیٹھی نے چند روز قبل آئی سی سی کے بورڈ اجلاس میں شرکت کی تھی (تصویر: ICC)

بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے بورڈ اجلاس میں شرکت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے میں نجم سیٹھی نے کہا کہ بگ تھری کا معاملہ پہلی بار 9 جنوری کو میرے سامنے آیا تھا جب میں آئی سی سی کے اجلاس میں شریک تھا اور وطن واپسی کے بعد میں نے بورڈ کے اراکین کو اس سے آگاہ کیا لیکن 15 جنوری کو عدالت کے حکم کی وجہ سے مجھے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اور پھر بورڈ کے معاملات ذکا اشرف نے چلائے اور اس دوران وہ دو مرتبہ آئی سی سی اجلاس میں شریک ہوئے۔ حالانکہ ایک، ایک کرکے تمام ممالک بگ تھری کو تسلیم کررہے تھے اور اس وقت بھی 6 ممالک بھارت، انگلستان اور آسٹریلیا کے مشترکہ منصوبے کی حمایت کا اعلان کر چکے تھے اور باقی رہ جانے والے جنوبی افریقہ، سری لنکا اور بنگلہ دیش بھی تین بڑوں کے حق میں جھکتے جا رہے تھے لیکن ذکا اشرف بدلتی ہوئی ہواؤں کے رخ کا اندازہ ہی نہیں لگا سکے ، یہاں تک کہ پاکستان بگ تھری تجاویز کا مخالف واحد ملک رہ گیا۔ اگر ذکا اشرف بروقت فیصلہ کرتے تو ہمیں کہیں زیادہ فائدہ ہوسکتا تھا ۔

چیئرمین پی سی بی نے کہا کہ ذکا اشرف کے موقف سے پاکستان عالمی کرکٹ میں مکمل طور پر تنہا ہوگیا تھا اور ہماری کوشش ہے کہ ہم پاکستان کی اس عالمی تنہائی کو ختم کریں اور اسے عالمی دھارے میں واپس لائیں کیونکہ ملک میں بین الاقوامی کرکٹ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کرکٹ ویسے ہی سخت مالی بحران سے دوچار ہے اور اس صورت میں وہ مزید کسی خسارے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

نجم سیٹھی نے کہا کہ میں نے پوری کوشش کی ہے کہ ذکا اشرف کے فیصلوں سے پاکستان کرکٹ کو ہونے والے نقصانات کا ازالہ کروں اور آئی سی سی کے حالیہ اجلاس میں اٹھائے گئے اقدامات اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ لیکن ہم نے واضح کردیا ہے کہ اگر وعدے پورے نہیں کیے گئے تو اس معاملے پر بین الاقوامی کرکٹ کونسل کو سپورٹ نہیں کریں گے۔