اِدھر ڈوبے،اُدھر نکلے
معین خان کی سربراہی میں 6 رکنی سلیکشن کمیٹی کا اعلان کردیا گیا ہے، جس میں شامل تمام سابق کھلاڑی 90ء کے عشرے میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ یہ اقدام خوش آئند ہے کہ سلیکشن کمیٹی کے لیے ایسے سابق کھلاڑیوں کا انتخاب کیا گیا ہے جو جدید کرکٹ سے خاصی واقفیت رکھتے ہیں مگر مخصوص چہروں کو نوازنے کا تسلسل جاری دکھائی دیتا ہے جو اُدھر ڈوبنے کے بعد اب اِدھر نکل آئے ہیں۔
سلیم یوسف، شعیب محمد اور اعجاز احمد ماضی میں بھی سلیکشن کمیٹیوں کا حصہ رہ چکے ہیں جبکہ سابق ٹیسٹ اوپنر وجاہت اللہ واسطی پہلی بار مجلس انتخاب کا حصہ بنے ہیں۔ سلیکشن کمیٹی میں شامل آخری نام محمد اکرم کا ہے جو ایک روز پہلے تک قومی ٹیم کے باؤلنگ کوچ تھے مگر اب انہیں دہری ذمہ داری دے دی گئی ہے، ایک سلیکٹر کی اور دوسری نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے ہیڈ کوچ کی۔
دو سال قبل محمد اکرم باؤلنگ کوچ کی حیثیت سے پاکستان کرکٹ بورڈ کا حصہ بنے مگر ان کی زیر تربیت پاکستان کے تیز گیندبازوں کی کارکردگی میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آ سکی۔ اس کے باوجود جب ڈیو واٹمور اور جولین فاؤنٹین کا معاہدہ ختم ہوا تو ذکا اشرف نے محمد اکرم پر اپنا اعتماد برقرار رکھتے ہوئے انہیں اگلے دو سال کی توسیع دے دی۔ نجم سیٹھی نے ذکا اشرف کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے محمد اکرم کو عہدے سے نہ ہٹایا حالانکہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں ناکامی کے بعد پورا کوچنگ عملہ فارغ کردیا گیا تھا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ محمد اکرم ‘نہ اگلاجائے اور نہ نگلا جائے’ کے مقام پر پہنچ گئے ہیں۔ وہ چیئرمین نجم سیٹھی کے منظور نظر نہیں لیکن نجانے کیوں ان کے معاملے میں انصاف کی دھجیاں اڑانے سے گریز کیا جا رہا ہے، حالانکہ اس سے پہلے سیٹھی انتظامیہ اس کام میں بالکل نہیں چوکی۔ اب محمد اکرم کو مختلف جگہوں پر کھپاکر صاف اشارہ دیا جارہا ہے کہ ہیڈ کوچ کے طور پر کسی تیز باؤلر کا انتخاب ہونے جا رہا ہے جو وقار یونس کے علاوہ کوئی اورنہیں ہو سکتا۔
محمد اکرم کے علاوہ اعجاز احمد بھی نیشنل اکیڈمی میں ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں اور اب ان پر بھی سلیکشن کی دہری ذمہ داری ڈال دی گئی ہے، حالانکہ وہ قومی ٹیم کے بیٹنگ و فیلڈنگ کوچ بننے کے خواہشمند تھے۔ یہی تمنا سابق اوپنر شعیب محمد کی بھی تھی۔ انہیں حال ہی میں فیلڈنگ کوچ کے عہدے سے ہٹایا گیا مگر شعیب پھر بھی اسی عہدے کے لیے درخواست دے رہے تھے۔
سلیم یوسف ایسا نام ہیں، جو کافی عرصے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ سے وابستہ ہوا ہے لیکن نئی سلیکشن کمیٹی میں صرف وجاہت اللہ واسطی ہی نووارد ہیں۔ باقی تمام افراد وہی ہیں جو کسی نہ کسی صورت میں ماضی قریب میں پی سی بی سے وابستہ رہے ہیں اور ایک عہدے پر ناکامی کے بعد دوسرے عہدے پر پہنچے ہیں۔ معین خان، محمد اکرم اور شعیب محمد تینوں اپنی تازہ ترین مہمات میں ناکام ہوئے مگر اس کے باوجود انعام کے طور پر نئے عہدے اور مراعات سمیٹ رہے ہیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ کیا پاکستان کرکٹ میں یہی گنے چنے نام رہے گئے ہیں جو ہر عہدے کے لیے اہل سمجھے جائیں؟ کیا کبھی پاکستان کرکٹ بورڈ کو ایسا چیئرمین بھی ملے گا جو اپنے من پسند افراد سے آگے دیکھنے کی بھی صلاحیت و اہلیت رکھتا ہو اور صحیح معنوں میں کرکٹ کے فروغ کے لیے کام کرے۔ راشد لطیف کا چیف سلیکٹر کا عہدہ ٹھکرا دینا اس بات کی دلیل ہے کہ پی سی بی میں 'سب ٹھیک' نہیں ہے اور یہاں ایسے افراد کو نوازا جا رہا ہے جو چیئرمین کی جی حضوری کی اہلیت رکھتے ہوں۔
سعید انور پاکستان کی تاریخ کے چند بہترین اوپنرز میں سے ایک ہیں لیکن حالیہ برسوں میں ایک بار بھی سعید انور کا نام کوچ کے لیے تجویز نہیں کیا گیا کیونکہ راشد لطیف، سعید انور اور ایسے ہی چند دیگر سابق کھلاڑی نہ چیئرمین کے ناز نخرے اٹھانے کے قائل ہیں اور نہ ہی اصولوں پر کوئی سمجھوتہ کرتے ہیں اس لیے ایسے لوگوں پر پی سی بی کے دروازے بند ہیں اور شاید ہمیشہ رہیں۔ جب تک پی سی بی میں بندربانٹ چلتی رہے گی اور مخصوص چہروں کو نوازنے کا عمل جاری رہے گا، پاکستان کرکٹ میں انقلابی بہتری کی امیدیں بھی بارآور نہیں ہوں گی۔