عالمی کپ کی تیاریاں کہاں ہونی چاہئیں؟ امارات میں یا آسٹریلیا و نیوزی لینڈ میں؟
پاکستان کے کھلاڑی نے طویل آرام کے بعد بالآخر آئند چند روز میں ایک مرتبہ پھر میدانوں میں نظر آنے والے ہیں، گو کہ یہ محض تربیتی سیشن ہے لیکن مئی اور جون کے مہینے میں لاہور کی تپتی گرمیوں میں تربیت جان جوکھوں کا کام ہوگا اور یہ سب کچھ ان تیاریوں کا حصہ ہے جو اگلے سال عالمی کپ کے لیے کی جا رہی ہیں۔ اس مرحلے تک پہنچنے سے قبل پاکستان کو پہلے تین امتحانوں سے گزرنا ہوگا۔ ایک اگست کے اوائل میں دورۂ سری لنکا اور اس کے فوراً بعد اکتوبر میں آسٹریلیا اور اس کے بعد نیوزی لینڈ کے خلاف متحدہ عرب امارات میں 'ہوم سیریز'۔
بلاشبہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف یہ دونوں سیریز مالی بحران سے دوچار پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے مالی لحاظ سے بہت اہمیت کی حامل ہوں گی لیکن کیا ان چند روپوں کی قدر عالمی کپ سے زیادہ ہے؟ اس سوال پر تقریباً سبھی کا جواب نفی میں ہوگا۔ چار سال ہونے والے دنیا کے سب سے بڑے اعزاز کے لیے دنیا کی بہترین ٹیمیں اگلے سال فروری اور مارچ میں پاکستان کے انہی دونوں حریفوں یعنی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے میدانوں میں کھیلا جائے گا، جہاں کے حالات متحدہ عرب امارات سے بہت زیادہ مختلف ہوں گے۔ تو کیا یہ دونوں سیریز پاکستان کی عالمی کپ تیاریوں کے لیے سودمند ثابت ہوں گی؟ ایسا نظر تو نہیں آتا۔
2009ء میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد سے پاکستان اپنے ملک میں کھیلنے سے محروم ہے اور ان حالات میں متحدہ عرب امارات قومی کھلاڑیوں کے لیے دوسرا گھر ہے لیکن جب عالمی کپ داؤ پر لگا ہو تو پاکستان کو غیر معمولی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ایک روزہ طرز کی کرکٹ ٹی ٹوئنٹی نہیں کہ محض چند اوورز کا کھیل ہی مقابلے کو حق میں پلٹ دے گا، اس کے لیے زیادہ مہارت، حاضر دماغی منصوبہ بندی، سوجھ بوجھ اور سمجھداری کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے سابق کپتان، اور آسٹریلیا میں ہونے والے آخری عالمی کپ کے فاتح دستے کے رکن، وسیم اکرم نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ پاکستان کے لیے یہ بہت سودمند ہوگا کہ وہ عالمی کپ سے قبل آسٹریلیا کا دورہ کرے۔ پاکستان 2009ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف اپنی ہوم سیریز نیوزی لینڈ ہی میں کھیل چکا ہے یعنی یہ کوئی نئی بات نہیں ہوگی اگر پاکستان نیوزی لینڈ کو راضی کرے کہ وہ سال کے آخر میں ہونے والی سیریز کے لیے اپنے میدان فراہم کرے۔
پاکستان آخری بار 2009ء کے اواخر میں سرزمین آسٹریلیا گیا تھا اور اس کے بعد ٹیم نے جو کارنامے انجام دیے، وہ اب بھی پاکستان کرکٹ تاریخ کا ایک افسوسناک باب ہیں۔ ٹیسٹ سیریز میں تین-صفر، ایک روزہ میں پانچ-صفر اور ٹی ٹوئنٹی میں ایک-صفر، یعنی کہ اتنے طویل دورے میں ٹیم ایک فتح کو بھی ترستی رہی اور ایک کے بعد ایک مقابلہ ہارتی رہی۔ دوسری جانب نیوزی لینڈ کا آخری دور ہ2011ء میں کیا، جہاں ٹیسٹ اور ون ڈے سیریز جیتا لیکن اس کے باوجود یہ جاننا چاہیے کہ مقابلہ نیوزی لینڈ کے سامنے تھا، جس کے خلاف پاکستان بہت اچھا ریکارڈ رکھتا ہے۔ اگر انہی میدانوں پر پاکستان اگلے عالمی کپ میں ویسٹ انڈیز اور جنوبی افریقہ کا مقابلہ کرے گا تو حالات بہت مختلف ہوں گے۔
گو کہ اب ایسا لگ رہا ہے کہ وقت گزر چکا ہے اور شاید دونوں ممالک اس سیریز کی میزبانی حاصل کرنے کے لیے تیار نہ ہوں لیکن اب پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ کچھ ایسا انتظام کرے کہ ٹیم عالمی کپ سے قبل آسٹریلیا و نیوزی لینڈ کے حالات سے آشنائی پیدا کرے۔ اس لیے اگر، ایک فیصد بھی اس بات کا امکان ہے کہ پاکستان کو عالمی کپ کے میزبان میدانوں پر کھیلنے کا موقع ملے، تو اس کی کوشش کی جانی چاہیے، پاکستان کے پاس اب بھی پانچ مہینے ہیں کہ وہ ان دونوں ملکوں کو راضی کرسکتا ہے۔