کک فوری طور پر استعفیٰ دے دیں، ناصر حسین برہم

2 1,029

لارڈز میں 28 سال بعد بھارت کے ہاتھوں شکست پر اب انگلستان کے مزید سابق کپتان ایلسٹر کک کے خلاف ہوگئے ہیں اور ان سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔

مجھے نہیں لگتا کہ تیسرے ٹیسٹ میں کک کی کمی کو محسوس کیا جائے گا: ناصر حسین (تصویر: Getty Images)
مجھے نہیں لگتا کہ تیسرے ٹیسٹ میں کک کی کمی کو محسوس کیا جائے گا: ناصر حسین (تصویر: Getty Images)

ٹرینٹ برج میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ کے بعد سابق کپتان جیفری بائيکاٹ نے کہا تھا کہ بدترین فارم کے ساتھ کک دیگر کھلاڑیوں پر دباؤکا باعث بن رہے ہیں اور انہیں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے قیادت سے دستبردار ہوجانا چاہیے۔ اب ناصر حسین کا کہنا ہے کہ معاملہ صرف کک کی ناقص بیٹنگ کا نہیں، بلکہ مسئلہ کہیں زیادہ گمبھیر ہے اور بہتر ہوگا کہ تیسرے ٹیسٹ سے پہلے کک قیادت سے استعفیٰ دے دیں۔

میچ کے خاتمے کے بعد اسکائی اسپورٹس پر گفتگو کرتے ہوئے ناصر حسین نے کہا کہ ساؤتھمپٹن میں اگلے ٹیسٹ سے پہلے کک کو خود سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا کپتان کی حیثیت سے ٹیم میں ان کی حیثیت امتیازی ہے؟ اعدادوشمار تو یہی بتاتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔

1999ء سے 2003ء تک انگلستان کی قیادت کرنے والے ناصر حسین نے یہاں تک کہا کہ اگر اگلے ٹیسٹ میں کک کپتان نہ ہوں تو کیا ہم کہہ سکیں گے کہ ہم ان کے شاطرانہ دماغ سے محروم ہیں؟ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ اگر آسٹریلیا فوری طور پر مائیکل کلارک کی قائدانہ خدمات سے محروم ہوجائے تو انہیں اس کی بہت زیادہ کمی محسوس ہوگی اور میں سمجھتا ہوں کہ کک کی غیر موجودگی میں انگلش ٹیم میں یہ احساس پیدا نہیں ہوگا۔ کیونکہ معاملہ صرف ان کی بری بیٹنگ فارم تک محدود نہیں۔ دیکھیں، اگر ساؤتھمپٹن میں کک 80 رنز بنا ڈالتے ہیں تو کیا انگلستان کے ٹاپ آرڈر کے مسائل حل ہوجائیں گے جو پے در پے اپنی وکٹیں گنوا رہا ہے؟ یا بیٹسمین شارٹ گیندوں کو بہتر انداز میں کھیلنے لگیں گے؟ اور کیا باؤلرز بھارت کے ٹیل اینڈرز کے خلاف اچھی باؤلنگ کریں گے؟ یا نئی گیند کا درست استعمال کریں گے؟ ان تمام سوالات کا جواب میری نظر میں تو "نہیں" ہے۔

29 سالہ کک اب تک اپنے ٹیسٹ کیریئر میں 25 سنچریاں بنا چکے ہیں لیکن گزشتہ سال نیوزی لینڈ کے خلاف لیڈز میں 130 رنز بنانے کے بعد سے وہ تہرے ہندسے میں پہنچنے سے محروم ہیں۔ گو کہ ان 27 اننگز میں وہ چھ بار نصف سنچری کا سنگ میل عبور کرنے میں کامیاب رہے لیکن بحیثیت قائد ان سے ایسی اننگز کی توقع ہے جو ٹیم کو سہارا تھا۔ پھر گزشتہ 10 میچز میں ٹیم کی فتوحات سے محرومی بلکہ آسٹریلیا اور سری لنکا کے خلاف سیریز میں شکست بھی تازیہ بن کر پڑرہی ہے۔

لارڈز میں، جہاں گزشتہ 82 سال میں انگلینڈ صرف ایک بار بھارت کے ہاتھوں ٹیسٹ ہارا تھا، مایوس کن کارکردگی نے بھارت کو جتوا دیا۔ 319 رنز کے تعاقب میں جب کھانے کے وقفے سے کچھ دیر پہلے تک میزبان 173 پر چار وکٹوں سے محروم تھا تو اس کے جیتنے کے امکانات خاصے تھے لیکن وقفے سے قبل ایشانت شرما کے ہاتھوں معین علی کا آؤٹ ہونا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ پھر نئی گیند کے ساتھ ایشانت کے زبردست اسپیل نے مقابلے کو آہستہ آہستہ بھارت کے حق جھکا دیا۔ یہاں تک کہ ان کی شارٹ گیندوں کے جال میں پھنسنے کے بعد پوری انگلش ٹیم 223 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ ایشانت نے 74 رنز دے کر 7 وکٹیں حاصل کیں جو ان کے کیریئر کی بہترین باؤلنگ ہے۔

اس کے باوجود ایلسٹر کک کہتے ہیں کہ ان کا استعفیٰ دینے کا کوئی ارادہ نہیں اور نہ ہی انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کی جانب سے کوئی ایسا اشارہ دکھائی دیتا ہے کہ وہ یہ انتہائی قدم اٹھائے گا؟ دیکھتے ہیں کہ ساؤتھمپٹن ٹیسٹ سے قبل انگلستان کیا منصوبہ بندی تیار کرتا ہے اور کیا کک اس حکمت عملی کا حصہ ہوں گے؟