باؤنسر سے پہلے، باؤنسر کے بعد
فلپ ہیوز کی اندوہناک موت نے نہ صرف بلے بازوں کی حفاظت پر سنگین سوالات اٹھا دیے بلکہ گیندبازوں کی جارح مزاجی کو بھی سخت ٹھیس پہنچائی۔ یہاں تک کہ چند حلقوں کی طرف سے باؤنسر پر ہی پابندی لگانے کے مطالبات سامنے آنے لگے لیکن اس زاویے سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہو رہا ہے باؤنسر کو خود باؤلرز ہی سے خطرہ ہوسکتا ہے اور ایڈیلیڈ میں جاری بھارت-آسٹریلیا ٹیسٹ اس کا پہلا امتحان ہے۔
تین دنوں کے دوران ایڈیلیڈ میں کئی ایسے لمحات آئے، جنہوں نے فلپ ہیوز کی دردناک موت کو ذہنوں میں تازہ کیا۔ کھیل کے پہلے دن ورون آرون نے اپنا پہلا باؤنسر پھینکا اور جب ڈیوڈ وارنر 63 رنز پر پہنچے تو شائقین نے ان لمحات میں دونوں کھلاڑیوں کی خوب ہمت افزائی کی اور تالیوں سے فلپ ہیوز کو خراج عقیدت بھی پیش کیا۔ لیکن چند ایسے مواقع بھی ضرور آئے جنہوں نے کھلاڑیوں پر خوف طاری کردیا، اور اس کا اقرار خود ڈیوڈ وارنر نے ذرائع ابلاغ کے سامنے بھی کیا۔ لیکن میدان پر سکتہ طاری کر دینے والا لمحہ کھیل کے تیسرے دن آیا۔
بھارت کی اننگز کے 31 ویں اوور میں جب مرلی وجے کے آؤٹ ہوجانے کے بعد قائم مقام کپتان ویراٹ کوہلی کریز پر آئے تو تیز گیندباز مچل جانسن نے ان کا استقبال ایک خطرناک باؤنسر کے ذریعے کیا۔ گیند اپنی پوری رفتار کے ساتھ سیدھا کوہلی کے ہیلمٹ کے بالکل سامنے والے حصے سے لگی۔ میدان میں اور میدان سے باہر موجود بھارتی کھلاڑیوں میں تو شاید اس باؤنسر پر تشویش کی لہر دوڑتی نظر نہیں آئی لیکن آسٹریلیا کے کھلاڑیوں میں سراسیمگی کا عالم تھا۔ جانسن سے لے کر وکٹ کیپر بریڈ ہیڈن اور کپتان مائیکل کلارک تک بلکہ تقریباً تمام ہی آسٹریلیا کے کھلاڑی دوڑتے ہوئے کوہلی کے پاس آئے اور ان سے خیریت دریافت کی۔ کوہلی نے ہیلمٹ اتارا اور آہستگی سے اشارہ کرتے ہوئے سب کو خیریت سے آگاہ کیا تو نامعلوم خوف کے اثرات کچھ کم ہوئے۔ اس موقع پر مچل جانسن کے چہرے پر ہوائیاں اڑتی دکھائی دے رہی تھی۔ درحقیقت اس باؤنسر نے شائقین اور کھلاڑیوں کے ذہنوں میں وہی دردناک اور خوفناک مناظر تازہ کردیے جو چند ہفتے قبل فلپ ہیوز کے لیے موت کا پیغام لائے تھے۔
کوہلی کو لگنے والے باؤنسر اور اس کے بعد آسٹریلیا کے کھلاڑیوں کے ردعمل سے صاف ظاہر تھا کہ فلپ ہیوز کی موت کا منظر اب بھی ان کے ذہنوں میں بالکل تازہ ہے اور وہ اب تک اس خوف سے باہر نہیں نکل سکے۔ آسٹریلیا کے کھلاڑی جو حریف کو خوف اور دباؤ میں رکھ کر میچ میں نفسیاتی اور جذباتی برتری حاصل کرنے کے حربے استعمال کرنے میں ماہر سمجھتے جاتے ہیں، ان کا رویہ بالکل بدلا ہوا محسوس ہوا۔ خود مچل جانسن کے چہرے پر پریشانی اور تشویش صاف نظر آ رہی تھی اور کپتان مائیکل کلارک کو ان کی پیٹھ تھپتھپا کر احساس دلانا پڑا کہ انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ ورنہ یہی جانسن تھے جنہوں نے گزشتہ ایشیز میں انگریز بلے بازوں تابڑ توڑ باؤنسرز کے ایسے حملے کیے تھے کہ مہمانوں کو سیریز گنواتے ہی بنی۔ صرف یہی نہیں بلکہ کپتان مائیکل کلارک بھی حریف بلے بازوں کو ڈرانے کے لیے اس حد تک گئے کہ میدان میں بازو توڑ دینے کی دھمکی دی۔
لیکن آج صبح جانسن اور کلارک کا بدلا ہوا رویہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ فلپ ہیوز کے حادثے کے بعد آسٹریلیا کے کھلاڑی سہمے ہوئے ہیں۔ لیکن باؤنسر کو زندہ رہنا چاہیے، ورنہ بلے بازوں کے حق میں جھکے والے کھیل سے گیندباز کا کردار ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔ ہیوز کےسانحے کو شاید کبھی بھلایا نہ جا سکے، لیکن کرکٹ کو جاری رہنا چاہیے اور خود شین ایبٹ نے اپنے پہلے میچ میں ہی باؤنسرز پھینک کر پیغام دیا ہے کہ بلے اور گیند کے درمیان برابر کا مقابلہ جاری رہنا چاہیے۔