دیوانے کا خواب حقیقت بن گیا
چٹ پٹ طے کی گئی پاک-بنگلہ سیریز سے قبل جب آل راؤنڈر شکیب الحسن نے کہا تھا کہ بنگلہ دیش 'فیورٹ' ہوگا تو مجھ سمیت کئی لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا تھا۔ آخر 16 سال سے بین الاقوامی کرکٹ میں پاکستان کے خلاف ایک فتح کو ترسنے والا بنگلہ دیش کیسے جیت سکتا ہے؟ وہ بھی عالمی کپ کا بہترین اسپیل پھینکنے والے وہاب ریاض، جنوبی افریقہ کے چھکے چھڑا دینے والے سرفراز احمد، پاکستان کے باصلاحیت ترین گیندباز جنید خان، 'جادوگر' سعید اجمل، قابل بھروسہ بلے باز محمد حفیظ، مصباح الحق کے 'جانشین' فواد عالم، نپی تلی گیندبازی کرنے والے راحت علی اور نئے لیکن باحوصلہ کپتان اظہر علی سے؟ پہلا ردعمل تو یہی تھا کہ "سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔" لیکن صرف دو دن کی کارکردگی نے اس خوش فہمی کا خاتمہ کردیا ہے۔ شکیب الحسن کے جس بیان کو "دیوانے کا خواب" سمجھا گیا وہ حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ بنگلہ دیش کے لیے ایک نئے دور کا آغاز اور پاکستان کرکٹ کے مستقبل کے لیے ایک ڈراؤنا خواب!
بنگلہ دیش نے بین الاقوامی کرکٹ میں پہلی مارچ 1986ء میں قدم رکھا تھا جب سری لنکا میں ایشیا کپ کھیلا گیا تھا جس میں پاکستان اور سری لنکا بھی شریک تھے۔ اس کے بعد 2000ء میں بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی مکمل رکنیت ملنے کے بعد بنگلہ دیش کو عرصہ دراز تک اپنی پہلی سیریز فتح کے لیے تگ و دو کرنا پڑی۔ جنوری 2005ء میں جاکر، یعنی تقریباً پانچ سال بعد بنگلہ دیش کو پہلی بار کوئی سیریز جیتنے کو ملی جب اس نے زمبابوے کو گھریلو میدانوں پر تین-دو سے شکست دی۔ اگلے تین سالوں میں بنگلہ دیش نے کینیا، اسکاٹ لینڈ، آئرلینڈ اور زمبابوے کے خلاف متعدد سیریز جیتیں، لیکن ان میں سے کوئی کامیابی بھی بنگلہ دیش کو عالمی سطح پر مقام نہیں دے سکتی تھی۔ آخر کیوں دیتی؟ بے حال زمبابوے اور اس زمانے میں کسی گنتی میں نہ آنے والے کینیا، اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کے خلاف فتوحات کی کیا اہمیت تھی؟ کرکٹ کے عالمی منظرنامے پر خود کو منوانے کے لیے بنگلہ دیش کو کوئی 'بڑا شکار' کرنے کی ضرورت تھی۔ 2009ء میں بنگلہ دیش نے پہلی بار خود سے بہتر کسی ٹیم کو شکست دی۔ جولائی 2009ء میں "ٹائیگرز" نے ویسٹ انڈیز کے خلاف ہوم سیریز میں تین-صفر سے کامیابی حاصل کی اور یوں پہلی بار خود کو "گھر کا شیر" ثابت کرنے کی کوشش کی اور ان کی اس ساکھ کو مہمیز عطاہوئی اکتوبر 2010ء میں۔ جب بنگلہ دیش نے نیوزی لینڈ کے خلاف چار مقابلوں کی سیریز میں کلین سویپ کیا۔ پھر کیا تھا؟ بنگلہ دیش کا اعتماد آسمانوں کو چھونے لگا۔ 2012ء میں ٹیم نے ویسٹ انڈیز اور 2013ء میں ایک مرتبہ پھر نیوزی لینڈ کو شکست دی ۔
یہ سب کامیابیاں ایک طرف، اور پاکستان کے خلاف سیریز جیتنا ایک طرف۔ مکمل رکن بن جانے کے بعد شاید ہی دنیا کی کوئی ایسی ٹیم ہو جس کو بنگلہ دیش نے کسی مقابلے میں شکست نہ دی ہو، سوائے پاکستان کے۔ اس پورے عرصے میں بنگلہ دیش کو پاکستان کے خلاف تمام ٹیسٹ، ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ 2015ء ان کے لیے رحمت بن کر نازل ہوا۔
میرپور کے شیر بنگلہ نیشنل اسٹیڈیم میں سیریز کے ابتدائی دونوں مقابلوں میں بنگلہ دیش نے بہت عمدہ کارکردگی دکھائی اور یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کو آؤٹ کلاس کردیا۔ نہ صرف بلے بازی میں پاکستان کے چھکے چھڑائے، بلکہ گیندبازی اور فیلڈنگ میں بھی خود کو کہیں بہتر ٹیم ثابت کیا۔ پہلے مقابلے میں بنگال کے شیروں نے 329 رنز جوڑے، جو ان کا ایک روزہ کرکٹ میں بہترین مجموعہ ہے، پھر دوسرے مقابلے میں 240 رنز کا ہدف محض 39 ویں اوور میں حاصل کرکے اپنی بالادستی ثابت کی۔ پھر گیندبازوں نے پہلے مقابلے میں پاکستان کو 250 رنز پر ڈھیر کیا اور دوسرے میں 239 رنز سے زیادہ نہ بنانے دیے۔ ان دونوں مقابلوں میں شاید ہی کوئی ایسا آسان موقع ہو جو بنگلہ دیش نے ضائع کرکے پاکستانی بلے بازوں کو نئی زندگی دی ہو جبکہ پاکستان نے پہلے ہی مقابلے میں مشفق الرحیم اور تمیم اقبال کے آسان مواقع ضائع کیے، جنہوں نے سنچریاں بنا کر پاکستان کو مقابلے کی دوڑ سے باہر کیا۔
اب بنگلہ دیش کی نظریں ایک اور منزل پر ہیں۔ پاکستان کے خلاف وائٹ واش، وہ 22 اپریل کو ہونے والے آخری مقابلے میں بھی کامیابی سمیٹ کر ایک نئی پرواز کرنا چاہتا ہے؟ کیا بنگلہ دیش اس میں کامیاب ہوپائے گا؟ اگر ایسی ہی کارکردگی دکھائی تو ضرور، لیکن اگر پاکستان اپنی صلاحیتوں اور اہلیت کے مطابق کھیلا تو شاید بنگلہ دیش کو دو-ایک پر ہی اکتفا کرنا پڑے جو ویسے ہی سیریز ٹرافی جیتنے کے لیے کافی ہے۔