ایشیز ہاتھ سے گئی لیکن کلارک کے لیے یادگار رخصتی
ایشیز کا پانچواں اور آخری ٹیسٹ آسٹریلیا کی ایک اننگز اور 46 رنز کی شاندار کامیابی کے ساتھ مکمل ہوا اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آسٹریلیا نے اپنے قائد مائیکل کلارک کو یادگار انداز میں الوداع کیا ہے۔
سیریز کا فیصلہ گو کہ چوتھے ٹیسٹ میں ہی انگلستان کے حق میں ہوگیا تھا۔ عموماً جب سیریز کا فیصلہ ہوجائے تو باقی ماندہ مقابلوں میں دلچسپی قدرے کم ہوجاتی ہے مگر اس راز کے آشکار ہونے کے باوجود پانچویں ٹیسٹ کی اہمیت کی خاص وجہ تھی۔ مائیکل کلارک اور کرس راجرز کی ریٹائرمنٹ۔ آسٹریلیا کے ان دونوں کھلاڑیوں نے مقابلے سے قبل ہی اعلان کردیا تھا کہ سیریز کے خاتمے کے ساتھ ہی وہ کرکٹ کو خیرباد کہہ دیں گے۔ اس لیے آسٹریلیا کی خواہش تھی کہ سیریز میں شکست کے باوجود وہ آخری مقابلہ جیت کو کپتان کو شایانِ شان انداز میں رخصت کرے اور انہیں اس مقصد میں کامیابی بھی ملی۔
ٹرینٹ برج میں زبردست کامیابی سمیٹنے کے بعد اوول میں گمان تھا کہ انگلستان بلند حوصلوں کے ساتھ میدان میں اترے گا اور ایک بار پھر مہمان کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مگر ’’الٹی ہوگئیں سب تدبیریں‘‘ ۔ ایک لمحہ ایسا نہیں آیا جب یہ محسوس ہوا ہو کہ مقابلہ انگلستان کی گرفت میں آگیا ہے۔ آسٹریلیا ہمہ وقت مقابلے پر چھایا رہا، یہاں تک کہ باآسانی اور بہت بڑے فرق سے کامیابی حاصل کی۔
ابتدائی ڈیڑھ دن تو آسٹریلیا کے بلے بازوں کا راج دکھائی دیا، جنہوں نے 481 رنز کا پہاڑ جیسا مجموعہ اکٹھا کیا پھر جب انگلستان کی باری آئی تو وہ اس کے دباؤ ہی سے نہ نکل سکے۔ سیریز میں آسٹریلیا کی ناکامی کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ گیندبازی توقعات کے مطابق نہ چل سکی لیکن اوول میں تو باؤلرز نے کمال ہی کردیا۔ دوسرے کے اختتام سے پہلے ہی محض 107 رنز پر انگلستان کے 8 کھلاڑی آؤٹ کردیے۔
تیسرے روز مقابلے کا دوبارہ آغاز ہوا تو انگلستان کی معمولی مزاحمت 148 رنز پر تمام ہوئی اور اُسے فالو آن کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ انگلستان کے پاس آخری موقع تھا کہ وہ گرتی ہوئی ساکھ کو بچائے مگر کپتان ایلسٹر کک کے علاوہ کوئی بلے باز اپنی ذمہ داری پوری نہ کرسکا۔
دوسری اننگز میں آسٹریلیا کو پہلی کامیابی کے لیے زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا۔ پیٹر سڈل نے محض 19 کے مجموعے پر ایڈم لیتھ کو چلتا کیا۔ پھر این بیل کریز پر آئے جن کا اب تک انگلستان کی فتوحات میں نمایاں کردار نہیں تھا، مگر آخری موقع پر بھی وہ کچھ نہ کرسکے اور محض 19 رنز بنانے کے بعد مچل مارش کا شکار ہوگئے۔ اِن فارم جو روٹ کپتان کا ساتھ دینے کے لیے آئے تو گویا اننگز کی شکست سے بچنے کی آخری بڑی امید کریز پر موجود تھی۔ دونوں نے مجموعے کو 99 رنز تک پہنچایا تو روٹ مچل جانسن کے سامنے ڈھیر ہوگئے۔
جانی بیئرسٹو کی 26 رنز کی اننگز ناتھن لیون کے ہاتھوں ختم ہوئی اور اسی اوور میں بین اسٹوکس بھی پویلین کی راہ چلتے دکھائی دیے۔ یوں 140 رنز پر انگلستان کی آدھی ٹیم آؤٹ ہوچکی تھی۔
کپتان ایلسٹر کک 85 رنز بنانے کے بعد بالآخر ہم ہار بیٹھے اور جس طرح 99 رنز پر وکٹ گری تھی، بالکل اسی طرح 199 رنز پر بھی انگلستان کو نقصان اٹھانا پڑا۔ جب دن کا اختتام ہوا تو 223 رنز پر انگلستان کی محض دو وکٹیں ہی باقی بچی تھیں۔
آسٹریلیا کے لیے کامیابی کے لیے ایک دن کا انتظار کرنا دشوار تھا لیکن خدا خدا کرکے رات کٹی تو بارش نے ان کے انتظار کو مزید طویل کردیا۔ بالآخر جب چوتھے دن کے کھیل کا آغاز ہوا تو معین علی کی مزاحمت سے مزید پریشان کیا۔ لیکن آخر کب تک۔ معین علی اور اس کے بعد اسٹورٹ براڈ آؤٹ ہوئے اور انگلستان کی اننگز 286 رنز پر تمام ہوگئی۔
پیٹر سڈل نے چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ لیون اور مارش نے دو، دو اور جانسن اور اسمتھ نے ایک، ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔
اسٹیون اسمتھ کو آسٹریلیا کی واحد اننگز میں 143 رنز کی شاندار اننگز کھیل پر میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز ملا۔ گو کہ سیریز میں سب سے زیادہ رنز بھی اسمتھ ہی نے بنائے تھے لیکن ان کے بعد سب سے زیادہ رنز سمیٹنے والے کرس راجرز اور جو روٹ کو مشترکہ طور پر سیریز کے بہترین کھلاڑی کے اعزازات ملے۔