پی سی بی نے محمد آصف کو خاموش رہنے کا مشورہ دے دیا

0 1,068

پاکستانی کرکٹ بورڈ کے حکام نے سزا یافتہ تیز گیند باز محمد آصف کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ذرائعِ ابلاغ کے سامنے متنازع بیانات دینے سے گریز کریں اور اپنی توجہ اپنی بحالی کے پروگرام پر مرکوز رکھیں۔

پاکستانی کرکٹ بورڈ نے محمد آصف اور اُن کے شریکِ جرم ساتھیوں سلمان بٹ اور محمد عامر کے لیے ایک پانچ مہینوں پر محیط بحالی کا پروگرام ترتیب دیا ہے۔ ان سب کھلاڑیوں پر اسپاٹ فکسنگ کے جرم میں پانچ سال کی پابندی تھی جس کی مدت یکم ستمبر کو ختم ہوئی ہے۔

پاکستانی کرکٹ بورڈ اور انتخاب کنندگان اس بات کو واضح کر چکے ہیں کہ یہ تینوں کھلاڑی اگلے سال جنوری تک کوئی فرسٹ کلاس کرکٹ نہیں کھیل پائیں گے۔ نیز، اُنہیں سب کے سامنے پہلے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ اپنی غلطیوں سے سبق حاصل اور اپنے جرم کا ازالہ کر چکے ہیں، تب ہی انہیں قومی ٹیم میں منتخب کیے جانے کے لیے زیرِ نظر رکھا جائے گا۔

پی سی بی نے اپنے پروگرام برائے بحالی میں یہ بھی وضاحت سے بیان کیا ہے کہ کھلاڑیوں کے اس مثلث کو پاکستانی ٹیم کے موجودہ کھلاڑیوں سے معذرت کرنی ہوگی اور انہیں اطمینان دلانا ہوگا کہ وہ اب تائب ہو کر اور پہلے سے بہتر انسان بن کر واپس آئے ہیں۔

اگرچہ سلمان بٹ، جو 2010 میں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے وقت پاکستان کے کپتان تھے، اور محمد عامر نے اپنے میڈیا بیانات کو محدود رکھا ہوا اور وہ دونوں کئی بار اپنے جرم کے لیے کئی بار قوم سے معافی بھی مانگ چکے ہیں، لیکن ان دونوں کے برعکس محمد آصف کا دوسرا ہی طرزِ عمل نظر آ رہا ہے۔

یہی وہ طرزِ عمل ہے جس کی وجہ سےبورڈ میں اس بات کی تشویش پائی جاتی ہے کہ شاید آصف نے اپنی شرم آور غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا ہے، اور اُن کی ذات میں اور اُن کے بیانات میں پشیمانی کے آثار نظر نہیں آتے۔ آصف کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ ذرا ٹھنڈے ہو جائیں اور اُن کھلاڑیوں کے خلاف، جو ان تینوں کو دوبارہ قومی ٹیم میں کھلانے کے حق میں نہیں ہیں، بیانات دے کر تنازع کھڑا کرنے کی کوشش نہ کریں۔ انہیں سمجھنا ہو گا کہ جو انہوں نے کیا تھا وہ پاکستانی کرکٹ کے لیے بہت نقصان دہ تھا، اور اگرچہ اب وہ اپنی پابندی کی مدت پوری کر چکے ہیں، لیکن اُن کی واپسی پر ردِ عمل ضرور ہوں گے۔

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں محمد آصف نے اُن کھلاڑیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا جو ان تین سزا یافتہ کھلاڑیوں کی دوبارہ قومی کرکٹ میں واپسی کے حق میں نہیں ہیں۔