جان بچی، سو لاکھوں پائے!
چار دن کا کھیل مکمل ہونے کے باوجود ابوظہبی میں فریقین کی پہلی اننگز بھی تکمیل کو نہ پہنچی تھی۔ 1092 رنز اور صرف 16 وکٹیں گرنے سے مقابلہ اکتاہٹ کی انتہاؤں تک پہنچ گیا تھا لیکن آخری روز ایسا پلٹا کھایا کہ سنسنی خیزی کی حدوں کو پہنچ گیا اور اس وقت کم روشنی کی وجہ سے مکمل ہوا جب انگلستان ہدف سے محض 25 رنز کے فاصلے پر تھا۔ انگریز کپتان ایلسٹر کک "دو چار ہاتھ جب لبِ بام رہ گیا" اور پاکستان کے کپتان "جان بچی، سو لاکھوں پائے" کی عملی تصویر بنے دکھائی دے رہے تھے۔
انگلستان نے گو کہ پہلی اننگز 598 رنز پر مکمل کی لیکن اسے پاکستان پر صرف 75 رنز کی برتری ہی مل سکی۔ جب پاکستان دوبارہ بلے بازی کے لیے میدان میں اترا تو دن میں لگ بھگ 80 اوورز کا کھیل باقی تھا۔ اس لیے دباؤ محسوس تو نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن پاکستان کی توقعات کے برعکس وکٹ نے تیسرے اور چوتھے کے بجائے پانچویں دن گیندبازوں کو مدد فراہم کرنا شروع کردی۔ پھر کیا تھا؟ دوسرے اوور سے ہی مقابلہ تیزی سے پلٹنا شروع ہوگیا۔ شان مسعود اور شعیب ملک کی ایک ہی اوور میں وکٹیں گرنے کے بعد جو کسر رہ گئی تھی وہ محمد حفیظ کے رن آؤٹ سے پوری ہوگئی۔
یہاں یونس خان اور مصباح الحق کو ذمہ دارانہ اننگز کی ضرورت تھی، بالکل ویسی باریاں، جیسی انہوں نے 2010ء میں یہاں کھیلے گئے اولین ٹیسٹ میں جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلی تھیں۔ لیکن دونوں کی تان محض 66 رنز جوڑنے کے بعد ٹوٹ گئی۔ آؤٹ ہونا تو شاید اتنا بڑا مسئلہ نہ ہوتا لیکن جس طرح انہوں نے وکٹ گنوائی ہیں، وہ ضرور دونوں کی ذمہ دارانہ حیثیت پر سوال اٹھاتا ہے۔ یونس عادل رشید کی گیند پر اندھادھند بلّا گھماتے ہوئے کیچ دے بیٹھے جبکہ مصباح الحق نجانے کس ترنگ میں آگے بڑھ کر کھیل رہے تھے اور گیند ان کا مڈل اسٹمپ اکھاڑتی ہوئی چلی گئی۔ جہاں معاملہ 'بزرگوں' سے نہ سنبھلا، وہاں جوان کیا کرتے؟ صرف 14 رنز کا اضافہ ہوا اور سب ڈھیر۔ کہاں پہلی اننگز کے 523 اور کہاں دوسری باری میں صرف 173 رنز، کیسا عروج کیسا زوال!
انگلستان کو جیتنے کے لیے صرف 99 رنز کا ہدف ملا، وہ بھی پورے 21 اوورز میں حاصل کرنا تھا۔ 2000ء کے کراچی ٹیسٹ کا بھوت جاگنے لگا تھا، جہاں انگلستان نے 44 اوورز میں درکار 176 رنز کا ہدف بالکل اندھیرے میں حاصل کیا۔ نہ کم روشنی ان کی راہ میں آڑے آ سکی اور نہ ہی پاکستان کے تاخیری حربے۔ وہاں تو روشنی کی کمی انگلستان کو جیت سے نہ روک سکی لیکن یہاں ضرور آڑے آئی، قانون کی وجہ سے۔ جب امپائر نے مقابلے کے خاتمے کا اعلان کیا تو انگلستان صرف 11 اوورز میں 74 رنز بنا چکا تھا اور اسے بقیہ 11 اوورز میں صرف 25 رنز کی ضرورت تھی۔ وہ اندھیرا جو کراچی میں پاکستان کے لیے ہزیمت بن گیا تھا، ابوظہبی میں رحمت بن کر آیا۔
ویسے کئی ذہنوں میں اس سوال نے ضرور جنم لیا ہوگا کہ آخر 15 سال پہلے کراچی میں مقابلہ کیوں نہیں روکا گیا؟ دراصل اُن دنوں اگر دن کے کھیل میں اوورز باقی بچے ہوں تو امپائر بلے بازوں سے پوچھتا تھا کہ کیا وہ مزید کھیلنا چاہتے ہیں؟ اگر بلے باز راضی ہوں تو مقابلہ جاری رکھا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 2000ء میں انگلش بلے باز مغرب کے بعد تک کھیلتے رہے جب فیلڈرز اور وکٹ کیپر کو ہی گیند نظر نہیں آ رہی تھی۔ اب یہ قانون تبدیل ہوچکا ہے، اختیار مکمل طور پر امپائر کے ہاتھ میں ہے اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ روشنی اتنی کم ہے کہ کھیل جاری نہیں رکھا جا سکتا تو وہ اس کے خاتمے کا اعلان کردے گا۔ یوں کراچی میں تو پاکستان کے ناقابل شکست ہونے کا ریکارڈ ٹوٹ گیا تھا، لیکن ابوظہبی میں اسی اندھیرے نے ناقابل شکست ہونے کا ریکارڈ برقرار رکھا۔ شکریہ امپائر!