”گیندبازوں کی جنت“ اُجڑ گئی
وہ دن لد گئے جب آسٹریلیا کی وکٹیں تیز گیندبازوں کے لیے مددگار سمجھی جاتی تھیں، خاص طور پر پرتھ کا واکا گراؤنڈ تو شہرۂ آفاق تھا۔ ایک ایسی جگہ جہاں وکٹ کیپر بھی عام گیندیں اپنے پیٹ کے قریب، تھوڑی سی اُٹھی ہوئی گیندیں سینے پر یا سر کے اوپر سے پکڑتے تھے، جبکہ باؤنسر تو اکثر ان کے اوپر سے گزر جاتی تھی۔ لیکن اس پچ میں نجانے کون سا "کھاد" ڈالا گیا کہ آج دن بھر باؤلرز جدوجہد کرتے رہے، صرف 8 وکٹیں ہاتھ لگیں اور 619 رنز تک بن گئے۔ یہی نہیں بلکہ ایک روزہ کرکٹ کی تاریخ میں پہلا موقع بھی آيا کہ کسی ایک مقابلے میں دو ڈبل سنچری شراکت داریاں بھی بن گئی۔ ہائے! "سمے سہانے کتھے گئے؟"
آسٹریلیا-بھارت پہلے ایک روزہ میں مہندر سنگھ دھونی نے پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا اور پھر روہیت شرما اور ویراٹ کوہلی کی مستند جوڑی کی 207 رنز کی شراکت داری کی بدولت 309 رنز بنا ڈالے۔ روہیت کی 171 رنز کی ناقابل شکست اننگز تو کمال تھی، آسٹریلیا کے خلاف آسٹریلیا میں کھیلی گئی سب سے بڑی اننگز، جس کے دوران وہ عظیم ویوین رچرڈز کی 153 رنز کی اس یادگار اننگز کو پیچھے چھوڑ گئے جو دسمبر 1979ء میں ملبورن میں کھیلی گئی تھی۔ وہ الگ بات کہ ویوین کی اننگز فاتحانہ تھی اور آسٹریلیا کو بری طرح شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا لیکن روہیت "ایک مرتبہ پھر" ناکام دستے کا حصہ بنے۔ کیونکہ آسٹریلیا نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا اور کپتان اسٹیو اسمتھ اور جارج بیلی کی 242 رنز کی زبردست رفاقت نے آسٹریلیا کو آخری اوور میں مقابلہ جتوا دیا۔ لیکن ایک اچھے مقابلے کے بجائے کرکٹ سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ مایوس کن مناظر تھے۔ پرتھ کا میدان اور اتنے رنز؟
اکیسویں صدی میں جہاں کرکٹ کے مزاج میں تبدیلی آئی ہے، وہیں رنز کے اس "انقلاب" کو سہارا دیا نئے قوانین اور غفلت نے۔ قوانین یہ کہ فیلڈنگ پر پابندیاں، گیندوں پر سختی اور گیند بازوں کے لیے کڑی شرائط اور غفلت بیٹ کی بڑھتی ہوئی موٹائی سے، جس کی مدد سے صرف گیند کو بلّا دکھانا ہی کافی ہوچکا ہے اور چھ رنز ملنا آسان ترین بن چکا ہے۔ لیکن ایک زمانہ تھا کہ جب حالات ایسے نہ تھے، تب 'واکا' کی پچ گیندبازوں کے لیے جنت سمجھی جاتی تھی۔ یہاں سے باؤلرز کو جو باؤنس یعنی اُچھال ملتا تھا، اس کی مثال نہیں ہوتی تھی لیکن 2000ء میں اس پچ کی کھدائی کرکے اس کی مٹی تبدیل کردی گئی جس کے بعد اس کی تیزی اور اچھال میں بہت حد تک کمی آئی ہے۔ اتنی زیادہ کہ دنیا کی دو بڑی بیٹنگ طاقتوں کے اس فرق کو کھول کر رکھ دیا ہے۔
پرتھ میں 125 رنز سے زیادہ کی آج تک صرف 6 اننگز کھیلی گئی ہیں جن میں سے صرف ایک ہی ایسی ہے جو 2000ء سے پہلے ہی ہے۔ باقی تین تو پچھلے ایک سال میں کھیلی گئی ہیں۔ آج روہیت اور اسمتھ کی اننگز اور گزشتہ سال عالمی کپ میں افغانستان کے خلاف ڈیوڈ وارنر کی 178 رنز کی باری۔ 2007ء میں یہاں آسٹریلیا نیوزی لینڈ مقابلے میں 678 رنز بنے تھے، اور صرف 10 وکٹیں گریں۔
2000ء سے پہلے یہاں صرف ایک بار کسی ون ڈے میں 300 یا اس سے زیادہ رنز بنے تھے، لیکن اس کے بعد سے اب تک 12 مرتبہ ایسا ہو چکا ہے بلکہ پچھلے سال عالمی کپ کے مقابلے میں تو آسٹریلیا نے 417 رنز تک بنا ڈالے تھے۔
پھر آج کے مقابلے میں 619 رنز کے بدلے صرف آٹھ وکٹیں گریں، یعنی فی وکٹ گیندبازوں نے 77 سے زیادہ رنز دیے۔ گویا یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ "گیندبازوں کی جنت" اب اجڑ چکی ہے۔ اب جب تک کھیل میں انقلابی تبدیلیاں نہیں لائی جاتیں، وہ سہانے دن واپس نہیں آ سکتے۔