ہزار رنز کی اننگز کی اصل کہانی، 25 مواقع، 10 سالہ باؤلرز، 30 گز کی باؤنڈری

1 1,055

ابھی چند روز قبل ہی بھارت کے ایک نوعمر لڑکے پرناو دھنواڑے کی 1009 رنز کی اننگز کا ہنگامہ تھا۔ صرف 323 گیندوں پر کھیلی گئی اس اننگز کا ذرائع ابلاغ پر خوب شور مچایا گیا، کیونکہ یہ کسی بھی سطح کی کرکٹ میں تاریخ کی سب سے بڑی انفرادی اننگز تھی۔ بھارت میں تو پرناو کو 'ہیرو' کا درجہ ملا یہاں تک کہ میڈیا نے اسے 'مستقبل کا تنڈولکر' قرار دے دیا۔ عین ممکن ہے کہ بھارت کو مستقبل کا تنڈولکر پروناو ہی میں ملے، لیکن جس اننگز کی تعریف میں جس طرح زمین آسمان کے قلابے ملائے گئے، اس کی حقیقت کچھ اور ہے۔

بھارت کی معروف ویب سائٹ 'انڈین ایکسپریس' نے 15 سالہ دھنواڑے کی اس اننگز کے بارے میں بتایا ہے کہ اس میں بلے باز کو ایک، دو یا تین نہیں بلکہ پورے 25 مواقع ملے، جن میں 22 بار ان کا کیچ چھوڑا گیا جبکہ تین بار اسٹمپنگ کے مواقع ضائع کیے گئے۔ پھر اگر میدان کی بات کی جائے تو اس کی باؤنڈری صرف 30 گز کی تھی، یعنی بین الاقوامی مقابلے میں 'اندرونی دائرے' جتنی۔

چلیں، یہ تو پھر بھی عجیب بات نہیں، مواقع تو کسی بھی بلے باز کو مل سکتے ہیں، لیکن بھنڈاری کپ میں آریا گروکل اسکول کے خلاف جس مقابلے میں دھنواڑے نے یہ کارنامہ سر انجام دیا، اس کے کوچ یوجیس جگتپ کا کہنا ہے کہ انہیں مقابلے سے صرف پانچ روز قبل اسکول کے نئے قانون سے آگاہ کیا گیا تھا کہ یکم جنوری کے بعد دسویں جماعت کے طلبا مقابلے کے لیے میسر نہیں ہوں گے۔ اس نئے قانون کی وجہ سے ٹیم پانچ اہم کھلاڑیوں سے محروم ہوگئی۔ لیکن میچ تو کھیلا ہی جانا تھا اس لیے بمشکل 12 رکنی ٹیم تشکیل دی گئی جس میں سے اکثریت نے کبھی اس سطح کا مقابلہ نہیں کھیلا تھا۔ بس یہی سوچ کر فیصلہ کیا گیا کہ کم از کم 'فیلڈنگ تو کو ہی لیں گے نا'۔

جن دو گیندبازوں نے آریا گروکل اسکول کی جانب سے باؤلنگ اٹیک سنبھالا، انہوں نے کبھی کسی اننگز میں 9 سے زیادہ اوورز نہیں پھینکے تھے، نہ کبھی 15 گز سے بڑی پچ پر باؤلنگ کی تھی اور نہ ہی کبھی کرکٹ کی اصل گیند کو آزمایا تھا۔ ایک گیندباز کا نام ایوش دوبے تھا، جس کی عمر 10 سال اور قد 4.4 فٹ ہے جبکہ دوسرے یعنی سارتھ سالونکے کا قد 4.5 فٹ ہے۔ یعنی یہ دونوں کھلاڑی اس سطح کے مقابلے کے لیے کسی بھی طرح میرٹ پر پورے نہیں اُترتے تھے لیکن اِس کے باوجود اُن پر یہ ظلم کیا گیا۔ ایوش نے 'انڈین ایکسپریس' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے دوران میچ کپتان سے کہا بھی تھا کہ اب زیادہ گیند بازی نہیں ہورہی اِس لیے مجھے کچھ آرام دیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اُنہوں نے متعدد بار دھنواڑے کو بھی کہا کہ ’بس کر، اور کتنا مارے گا؟‘ جس پر دھنواڑے ہر بار ایک ہی جواب دیتا کہ ’جا جا باؤلنگ کر، اور بہت مارنا ہے۔‘

یقیناً ہار جیت کھیل کا حصہ ہے، لیکن اس بدترین شکست کو شاید آریا اسکول کبھی نہ بھول پائے۔ کوچ نے اسکول انتظامیہ کو کہہ دیا ہے کہ ہم جن لڑکوں کے ساتھ کھیلے ہیں، انہوں نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر کھیل پیش کیا ہے، لیکن وہ اب بھی اپنے فیصلے پر پشیمان ہیں کہ انہیں مستقل ٹیم کے ساتھ ہی میدان میں اترنا چاہیے تھا۔

دوسری جانب وہ لڑکے، جنہیں اسکول انتظامیہ کی جانب سے کھیلنے کی اجازت نہیں ملی تھی، اب کوچ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ 'بس ایک بار دوبارہ مقابلہ کروا دیں، پھر ہم بتائیں گے ان کو۔'

اس امر سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ریکارڈ اپنی جگہ ریکارڈ ہی ہوتا ہے، چاہے جن حالات میں بھی بنایا گیا ہو، لیکن میڈیا کی یہ ذمہ داری بنتی تھی کہ ریکارڈ کو چھان پھٹک کر اس کی اصل حیثیت کے مطابق پیش کیا جاتا اور شائقین کو اس کی مکمل اور صحیح تصویر دکھائی جاتی، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔

Pranav-Dhanawade