سعید اجمل، ایک مرتبہ پھر اڑان کے لیے تیار

1 1,112

پاکستان، بلکہ دنیائے کرکٹ، پر ایک عرصے تک راج کرنے والے سعید اجمل باؤلنگ ایکشن پر اٹھنے والے اعتراض کے بعد یک لخت عرش سے فرش پر آ گئے لیکن بُرے وقت میں مایوس ہونے کے بجائے اُنہوں نے جم کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ستمبر 2014ء میں اعتراض اٹھنے کے بعد وہ اپنے باؤلنگ ایکشن کو بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے معیارات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش میں لگ گئے۔ ایک وقت ایسا تھا کہ جب اجمل "دوسرا" کو "تیسرا" کی کوششوں میں مگن رہتے تھے، لیکن پھر وہ وقت آیا کہ ان کی اولین کوشش کسی طرح اپنے ہاتھ کو 15 درجے کے زاویے کی حد کے اندرے لانے پر مرکوز ہوگئی۔

اس کوشش کے دوران عالمی کپ 2015ء کا اہم مرحلہ آیا۔ 'جن پہ تکیہ تھا' وہی سعید اجمل مجبوراً باہر بیٹھے لیکن اس صدمے کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ باؤلنگ ایکشن کو درست ثابت کر دکھایا اور ان پر ٹیم کے دروازے دوبارہ کھل گئے۔ واپسی کے بعد ان کی پہلی آزمائش دوۂ بنگلہ دیش تھا لیکن یہ نہ صرف پاکستان بلکہ سعید اجمل کے لیے بھی بھیانک ثابت ہوا۔ تینوں ایک روزہ مقابلوں میں پاکستان کو شکست ہوئی اور سعید نے اپنے کیریئر کا بدترین باؤلنگ اسپیل کروایا کہ جس میں انہوں نے 10 اوورز میں 74 رنز دیے اور کوئی وکٹ حاصل نہ کرسکے۔

اس کارکردگی کے بعد سعید اجمل کو نکال دیا گیا۔ واپسی کے عزم کے ساتھ سعید نے مزید کوشش کی کہ لیکن "الٹی ہوگئیں سب تدبیریں" کے مصداق کچھ نہ ہو سکا۔ وہ کاؤنٹی کرکٹ کھیلے لیکن 51.25 کے اوسط سے صرف 16 وکٹیں حاصل کر سکیں۔ اس دوران یاسر شاہ اور ذوالفقار بابر نے اپنی کارکردگی سے ٹیسٹ میں جگہ مضبوط بنا لی۔ تب سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوا کہ کیا 38 سال کی عمر میں سعید اجمل دوبارہ بین الاقوامی کرکٹ میں واپس آ پائیں گے؟ ان کی ریٹائرمنٹ تک کی خبریں گردش کرنے لگیں جن کی بعد میں سعید نے تردید کی اور ایک مرتبہ پھر قومی ٹیم میں واپسی کا عزم ظاہر کیا۔ لیکن حالات اچھے نہیں تھے، یہاں تک کہ پاکستان سپر لیگ میں کھلاڑیوں کے انتخاب کے مرحلے پر سعید اجمل بمشکل بالکل آخری مرحلے میں منتخب کیے گئے وہ بھی اضافی کھلاڑیوں کے زمرے میں۔ اسلام آباد یونائیٹڈ نے انہیں حاصل کیا اور ان کی خوش قسمتی کہ آخری وقت میں وہ متبادل کے طور پر مرکزی دستے میں بلا لیے گئے۔

saeed-ajmal

پاکستان سپر لیگ میں سعید اجمل نے ثابت کیا ہے کہ وہ غلط نہیں کہتے تھے۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے ہاتھوں شکست کے بعد پشاور زلمی کے خلاف مقابلے میں سعید اجمل کو پہلی بار کھلایا گیا۔ گو کہ اس مقابلے میں بھی اسلام آباد کو شکست ہوئی لیکن سعید نے 4 اوورز میں صرف 19 رنز دے کر ایک وکٹ لے کر ثابت کیا کہ ان میں اب بھی دم خم ہے۔ دو شکستوں کے بعد اسلام آباد کو یقیناً مشکل صورتحال کا سامنا تھا اور تیسرے مقابلے میں فتح ناگزیر تھی۔ اِس میچ میں بھی بلے باز متاثر کن کارکردگی حاصل نہ کرسکے، اور پہلے بلے بازی کرتے ہوئے مقررہ اووز میں صرف 132 رنز ہی بناسکے۔ اب ساری ذمہ داری گیند بازوں کے کاندھوں پر آگئی تھی، جسے انہوں نے بہترین طریقے سے نبھایا، اور سب سے اچھی کارکردگی کسی اور کی نہیں بلکہ سعید اجمل کی تھی۔ انہوں نے چار اوورز میں 27 رنز کے عوض تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا، جس کے سبب اسلام آباد کو اِس میچ میں دو رنز کی قیمتی فتح نصیب ہوئی۔ سعید اجمل کو میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز ملا۔

اسلام آباد یونائیٹڈ کے کوچ ڈین جونز کا کہنا تھا کہ سعید اجمل کو پی ایس ایل کی صورت میں بہترین موقع میسر آیا ہے کہ وہ ثابت کرے کہ وہ کس قدر بڑا گیند باز ہے، درحقیقت یہی پی ایس ایل کا فائدہ ہے کہ صرف نوجوان کو موقع میسر نہیں آرہا، بلکہ اُن کھلاڑیوں کو بھی اپنی فارم دکھانے کا موقع مل رہا ہے جو مسلسل ٹیم سے باہر ہیں۔

پی ایس ایل میں اگرچہ ابھی صرف چند ہی مقابلے ہی کھیلے گئے ہیں، لیکن اِس کے باوجود پاکستان کو پشاور کے محمد اصغر اور کوئٹہ کے محمد نواز کی صورت اچھے کھلاڑی ملے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے اب تک ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے اسکواڈ کا علان نہیں کیا کہ وہ ابھی کچھ دن اور نئے کھلاڑیوں کو جانچنا چاہتا ہے، تاکہ ورلڈ کپ کے لیے مضبوط ترین ٹیم تشکیل دے سکے۔