پی ایس ایل میں فکسنگ اور میڈیا کی "اندھادھند فائرنگ"

0 1,054

مرض کی تشخیص اسے دبانے یا چھپانے سے کہیں زیادہ ضروری اور اہم ہوتی ہے اس لیے چاہے آپ کو پاکستان سپر لیگ 2017 کے دوسرے ہی دن اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کا منظر عام پر آنا "رنگ میں بھنگ" کیوں نہ لگ رہا ہو، لیکن یہ اس گروہ اور ان شخصیات کے لیے بہت اچھا ہے جسے شبانہ روز محنت کے بعد اس مقام تک پہنچایا گیا ہے۔

پاکستان سپر لیگ کے شاندار آغاز کے بعد جب شائقین وجد کے عالم میں تھے تو ان کو یہ شدید دھچکا لگا کہ دفاعی چیمپیئن اسلام آباد یونائیٹڈ کے دو اہم بلے باز شرجیل خان اور خالد لطیف کو فکسنگ کے شبے میں معطل کردیا گیا ہے۔ اب وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی تحقیقات مکمل ہونے تک نہیں کھیل سکیں گے۔ پہلے سال کی کامیابی کے بعد دوسرے سیزن میں ایسا کوئی بھی واقعہ غیر متوقع نہیں تھی خاص طور پر جب دنیا کی نظریں پی ایس ایل پر تھیں اور یہ ایک اہم لیگ کے طور پر ابھر کر سامنے آرہی ہے۔

اب شرجیل اور خالد وطن واپس پہنچ چکے ہیں اور اس وقت حالت یہ ہے کہ جتنے منہ ہیں، اتنی باتیں ہیں۔ خاص طور پر ذرائع ابلاغ، بالخصوص وہ ٹیلی ویژن کہ جنہیں گھاس ڈالی گئی اور نہ وہی وہ کسی مثبت کام کرنے قابل ہیں، نے وہ "اندھا دھند فائرنگ" شروع کر رکھی ہے جس کی زد میں اب وہ لوگ بھی آ رہے ہیں جن کا کوئی لینا دینا نہیں۔ جس کا نام منہ میں آ رہا ہے، لیا جا رہا ہے۔ غیر اخلاقی رپورٹنگ کا یہ "سماں" نہ صرف پاکستانی میڈیا کے بچگانہ رویے کی عکاسی کرتا ہے بلکہ پی ایس ایل کے برانڈ کو بھی مزید نقصان پہنچا رہا ہے۔

اس لیے شائقین کرکٹ کے لیے ضروری ہے کہ وہ چند پہلوؤں کو بالکل واضح کرلیں:
1) شرجیل خان اور خالد لطیف سمیت کسی کھلاڑی پر ابھی کوئی الزام ثابت نہیں ہوا ہے۔
2) دونوں کھلاڑیوں کو دستیاب ثبوتوں کی بنیاد پر معطل کیا گیا ہے، وہ ملزم ہیں، مجرم نہیں۔
3) دیگر کسی کھلاڑی پر کوئی الزام نہیں۔
4) شاہزیب حسن، ذوالفقار بابر اور محمد عرفان دبئی میں موجود ہیں۔
5) کسی کھلاڑی کو اپنی ٹیموں کی نمائندگی سے نہیں روکا گیا۔

شرجیل خان اور خالد لطیف پر الزام کیا ہے؟
اینٹی کرپشن یعنی انسداد بدعنوانی کا قانون کھلاڑیوں کو پابند کرتا ہے کہ اگر کوئی سٹے باز خود بھی ان سے رابطہ کرے تو وہ اس کی اطلاع متعلقہ حکام کو دیں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں کھلاڑیوں کے خلاف تحقیقات شروع ہو سکتی ہیں اور اس وقت یہی ہو رہا ہے۔

C4UXZGmWYAADA5L

اس پورے منظرنامے میں ایسالگتا ہے میڈیا کی "لاٹری" کھل گئی ہے۔ دو دن تک مثبت خبریں چلانے کے بعد شاید اس کا ہاضمہ خراب ہوگیا تھا اور اب منفی خبروں کی "ہاجمولا" کے ذریعے کسر پوری کی جا رہی ہے۔ جس سے اختلاف ہے، اس کا نام لیا جا رہا ہے۔ اس لیے الٹی سیدھی خبروں پر نہ جائیں، صرف معتبر ذرائع سے رابطہ کریں 🙂