اپنی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو!
پاکستان سپر لیگ سیزن2 کے فائنل کا معاملہ ہفتوں تک لٹکا رہا، یہاں تک کہ لاہور میں انعقاد کا حتمی فیصلہ ہوا اور اس کے ساتھ ہی ایک لایعنی بحث کا آغاز ہو چکا ہے۔ 'جتنے منہ اتنی باتیں ' ہیں اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ ایک طرف یہ خدشہ ہے کہ ایک یادگار مقابلے کے انعقاد کا سہرا حکومت وقت کو نہ مل جائے تو دوسری جانب سنجیدہ خدشات کو پس پشت ڈال کر ہر صورت میں فائنل کروانے کی ضد ہے۔ اس کھینچا تانی کی وجہ سے پی ایس ایل2 کا فائنل اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا سیاسی موضوع بن چکا ہے اور بس امید ہی کی جا سکتی ہے کہ ہر سیاسی معاملے کی طرح اس کا انجام بخیر ہو۔
اس رسہ کشی میں عوام کھیل کے حقیقی لطف اور ایک اہم مقابلے کے پاکستان میں انعقاد کی خوشی منانے کے بجائے غیر ضروری بحث میں شامل ہو گئے ہیں۔ پاک فوج کی یقین دہانی اور سربراہان مملکت کی سطح کی سکیورٹی کی تصدیق کے بعد بھی چند حلقوں کی جانب سے مسلسل اس فیصلے پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ فیصل بینک ٹی ٹوئنٹی کپ جیسی پھبتیاں کسنا اور مضحکہ خیز 'اردو کمنٹری' کی باتیں کرنا یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ فائنل کا انعقاد اب مکمل طور پر ایک سیاسی ایونٹ بن چکا ہے۔ اس لیے اگر آپ اس معاملے پر کوئی بہتر رائے قائم کرنا چاہتے ہیں تو چند پہلوؤں کو واضح رکھیں۔
پاکستان سپر لیگ کا مقصد
سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آخر پاکستان سپر لیگ کا مقصد کیا ہے؟ ان کے بارے میں جان کر ہی آپ بہتر رائے قائم کر سکیں گے۔ پی ایس ایل کا پہلا مقصد تو یہی ہے کہ پاکستان کرکٹ کے مالی خسارے کو کم کرکے اسے ایک منفعت بخش اور مالی لحاظ سے ایک مضبوط ادارہ بنانا ہے۔ دوسرا، نوجوان اور باصلاحیت کھلاڑیوں کو تلاش کرکے دنیا کے معروف کھلاڑیوں کے ساتھ کھلانا تاکہ ان کے اعتماد میں اضافہ ہو اور عالمی معیار کے کوچز کی نگرانی میں ان کی خام صلاحیتیں نکھریں۔ یہ دونوں ہدف اسی صورت میں زیادہ بہتر انداز میں حاصل ہو سکتے ہیں جب لیگ کا انعقاد پاکستان میں ہو۔ یہاں کے میدان پاکستان کرکٹ بورڈ کی ملکیت ہیں، اس لیے متحدہ عرب امارات کے میدانوں کو بھاری کرایوں پر لینے کے اخراجات ختم ہو جائیں گے اور ساتھ ہی پاکستان کے ہوٹلوں اور دیگر انتظامات کے اخراجات بھی دبئی کے مقابلے میں کہیں کم ہوں گے۔
بین الاقوامی کرکٹرز کی حیثیت
بلاشبہ، وطن عزیز کے حالات اس وقت اتنے پرامن نہیں ہیں کہ ہم بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی)، بین الاقوامی کرکٹرز کی انجمن (فیکا) اور دیگر اہم اداروں بلکہ دوسرے ملکوں کے کرکٹ بورڈز کو بھی قائل کر سکیں کہ وہ یہاں آ کر کھیلیں لیکن یہ قدم بہرحال اٹھانا تھا اور اگر فیصلہ کرلیا گیا ہے تو اٹھنا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ ابتدا میں یہ قدم کچھ بھاری ہو کیونکہ کئی غیر ملکی کھلاڑی پاکستان میں کھیلنے سے انکار کر چکے ہیں۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز فائنل میں پہنچا ہے تو اس کے تمام غیر ملکی کھلاڑیوں نے کھیلنے سے انکار کردیا ہے جو کسی دھچکے سے کم نہیں۔ انٹرنیشنل اسٹارز کی کشش اپنی جگہ لیکن یاد رکھیں کہ وہ 'کرائے کے سپاہی' ہیں اور قومی لیگ کا محض ایک عنصر۔ وہ پی ایس ایل کی ساکھ میں اضافہ ضرور کرتے ہیں لیکن اس کے بنیادی مقاصد کا حصہ نہیں ہیں۔ ایسا بالکل ہو سکتا ہے کہ کیون پیٹرسن، رائلی روسو، ٹائمل ملز اور دیگر کھلاڑیوں کی غیر موجودگی میں لیگ کی کشش میں کمی ہو لیکن مقصد ہرگز فوت نہیں ہوگا اسی لیے فائنل کے پاکستان میں انعقاد کا فیصلہ بہرحال منطقی ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی غلطیاں
اس معاملے میں پاکستان کرکٹ انتظامیہ سے چند غلطیاں ضرور ہوئی ہیں۔ ایک تو پروڈکشن ہاؤس 'سن سیٹ+وائن' کو قائل نہیں کر پایا جو ظاہر کرتا ہے کہ لاہور میں فائنل کھیلنا جلد بازی کا فیصلہ تھا جس پر کسی کو قبل از وقت اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے مختلف سیاسی حلقے اسے حکومتی ضد قرار دے رہے ہیں اور کسی حد تک اس رائے میں حق بجانب بھی ہیں۔ اگر فائنل لاہور یا کسی پاکستانی شہر میں کروانا تھا تو یہ بات لیگ سے پہلے ہی روز روشن کی طرح عیاں ہونی چاہیے تھی تاکہ اس کے بروقت انتظامات ہوتے۔ اب عالم یہ ہے کہ فائنل کے لیے نہ کمنٹیٹرز کی وہ ٹیم دستیاب ہے جس نے اپنے شاندار تبصرے سے پی ایس ایل2 کو چار چاند لگائے، نہ ہی عالمی معیار کی ان نشریات کا امکان نظر آتا ہے جس کی وجہ سے دنیا پی ایس ایل کی جانب توجہ کر رہی تھی۔ اس پر انتظامیہ کو بالکل رگیدنا چاہیے لیکن پھبتیاں کسنا، مذاق اڑانا اور 'پاگل پن' قرار دینا ذہنی پستی کا اظہار ہے۔
حرف آخر
مصنوعیت سے بہتر بے ساختگی اور فطری انداز ہے۔ اگر پاکستان برطانیہ جتنا ترقی یافتہ نہیں تو کیا ہم اپنے ملک سے محبت نہیں کریں گے؟ اگر لاہور پیرس جتنا حسین نہیں تو کیا ہم طنز اور طعنوں پر اتر آئیں گے؟ اس رویے کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ دبئی کا مرکزی اسٹیڈیم چاہے دنیا کا حسین ترین میدان ہو لیکن ہمارے لیے جو حیثیت قذافی اسٹیڈیم کی ہے وہ دنیا کے کسی میدان کی نہیں ہو سکتی۔ جو چاشنی اردو زبان کی کمنٹری کی ہے وہ دنیا کی کسی زبان میں نہیں ہو سکتی۔ جو مزا وسیم اکرم انکلوژر میں بیٹھ کرکرکٹ دیکھنے کا ہے وہ لارڈز کی میڈیا گیلری میں بیٹھ کر بھی نہیں آ سکتا۔ یہ ملک ہمارا ہے، یہ شہر ہمارا ہے، یہ زبان ہماری ہے اور جو اپنا ہو وہ ہمیشہ کرائے کی چیز سے بہتر ہوتا ہے۔ اس لیے سپر لیگ کا فائنل اگر لاہور میں ہو تو وہ ہمیں دبئی بلکہ میلبرن میں ہونے والے ہزار ہا فائنلوں سے بھی زیادہ عزیز ہوگا۔
پی ایس ایل انتظامیہ نے دو سالوں میں جو کارنامے دکھائے ہیں، وہ ہماری توقعات سے بڑ ھ کر تھے، لیگ ہماری سوچ سے بھی زیادہ کامیاب کر کے دکھائی، اس لیے ان پر اعتماد کریں، آگے بڑھیں اور ان کی ہمت بندھائیں۔