پی ایس ایل3 کی ڈریم ٹیم

0 1,275

پاکستان سپرلیگ 2018ء میں کئی کھلاڑیوں نے اپنی کارکردگی سے متاثر کیا اور اپنی صلاحیت سے لیگ پر نمایاں اثرات مرتب کیے۔ تسلسل کے ساتھ پیش کی گئی اس کارکردگی کی بنیاد پر ہم نے پی ایس ایل3 کے ان بہترین کھلاڑیوں کا انتخاب کرکے ایک "ڈریم ٹیم" منتخب کی ہے۔ آپ بھی دیکھیے:

کامران اکمل

کامران اکمل سے سبھی واقف ہیں، ایک جارحانہ بلےباز وکٹ کیپر مگر طویل کرکٹ کیریئر رکھنے کے باوجود وہ خود کو کسی ایک معیار پر قائم نہ رکھ سکے، کبھی بہت بلندی پر اور پھر اچانک پستی میں۔ بس ایسے ہی نشیب و فراز سے عبارت ہے کامی کا کیریئر۔ گزشتہ پی ایس ایل کی طرح موجودہ سیزن میں بھی کامران نے بلے بازی کے خوب جوہر دکھائے، سیزن کی واحد سنچری اور پھر دوسرے پلے آف میں 17 گیندوں پر ایونٹ کی تیز ترین نصف سنچری بنا کر نہ صرف سب کو متاثر کیا بلکہ پشاور کو ایک مرتبہ پھر فائنل تک رسائی بھی دلا دی۔ کامی مجموعی طور پر 4 نصف سنچریوں اور ایونٹ کی واحد سنچری بنا کر نمایاں ترین بلے بازوں میں دوسرے نمبر پر رہے لیکن فائنل میں ناکامی نے انہیں ہیرو سے ولن بنا دیا۔ اہم ترین مقابلے میں صرف 1 رن پر آؤٹ ہونا اور نازک ترین مرحلے پر اہم کیچ چھوڑ دینے سے کامران کی تمام تر کارکردگی پر پانی پھر گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیسی کارکردگی انہوں نے پورے سیزن میں دکھائی، وہ پی ایس ایل کی ہر الیون کا لازمی حصہ بنیں گے۔

لیوک رونکی

موجودہ ٹیموں میں سے اگر ایک تباہ کن اوپننگ جوڑی تشکیل دی جائے تو کامران اکمل کے ساتھ دوسرا نام یقیناً لیوک رونکی ہی ہو گا، جنہوں نے فائنل میں بھی بہترین اننگز کھیل کر اسلام آباد کو دوسری بار چیمپیئن بنوا دیا۔ یہی نہیں 435 رنز کے ساتھ پی ایس ایل3 میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمین بھی قرار پائے۔ لیوک رونکی کا آغاز بہتر نہ تھا ابتدائی 4 میچز میں وہ صرف 46 رنز بنا رکھے تھے، اور ان میں دو مرتبہ صفر پر بھی آؤٹ ہوئے۔ لیکن پلے آف مرحلے تک آتے آتے وہ عروج پر پہنچ چکے تھے۔ یہاں کراچی کنگز کے خلاف 37 گیندوں پر 71 رنز گویا عروج تھا۔ یہی نہیں فائنل میں پشاور زلمی کے خلاف 25 گیندوں پر 54 رنز کی اننگز بھی اسلام آباد کو ٹائٹل کے قابل بنا گئی۔

بابر اعظم

بابر اعظم ایک پرعزم نوجوان ہیں، جنہوں نے کیریئر کے آغاز میں ہی بڑا نام کما لیا ہے۔ پی ایس ایل کے اس سیزن میں انہوں نے 11 میچز میں 5 نصف سنچریاں بنا کر 122.18 کے اسٹرائیک ریٹ سے 402رنز جوڑے یعنی رنز کے اعتبار سے لیوک رونکی اور کامران اکمل کے بعد تیسرے نمبر پر رہے۔ درحقیقت، کراچی کنگز اگر تیسرے پلے آف تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہے تو اس میں بابر کا بھی نمایاں کردار ہے۔ وہ صرف اونچے شارٹ مارنے والے بلے باز نہیں بلکہ اننگز کو پائیدار انداز سے لے کر چلنے والے کھلاڑی ہیں۔ ون ڈاؤن پوزیشن پر اگر بابر جیسا بلےباز ہو تو اوپننگ جوڑی کی ناکامی کو سنبھالنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔

شین واٹسن

شین واٹسن کو ٹی20 فارمیٹ کا شہنشاہ سمجھا جاتا ہے اور وہ خود کو اس کا اہل بھی ثابت کرتے ہیں۔ دو سال اسلام آباد یونائیٹڈ کی جانب سے کھیلنے والے واٹسن اس مرتبہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی نمائندگی کر رہے تھے، جس میں انہوں نے 135.16 کے اسٹرائیک ریٹ سے 319 رنز بنائے۔ لیکن ایونٹ کا آخری مرحلہ کھیلنے کے لیے پاکستان آنے سے انکار کیا، جس کا کوئٹہ کو نقصان اٹھانا پڑا ہی، ساتھ ہی ان کے ریکارڈ پر بھی اثر پڑا۔ واٹسن کا شمار محدود فارمیٹ کے بہترین آل راؤنڈرز میں ہوتا ہے۔ جب کبھی بلّے کے کمالات نہ دکھا سکیں تو گیندبازی میں حریف کے لیے مشکل بن جاتے ہیں اور اگر دونوں شعبوں میں چل جائے تو فتح یقینی ہو جاتی ہے۔

آصف علی

موجودہ پی ایس ایل میں اگر کوئی مقامی بلےباز نکھر کر سامنے آیا ہے تو وہ اسلام آباد یونائیٹڈ کے آصف علی ہیں۔ مڈل آرڈر میں ایسا نڈر بلے باز اور بہترین finisher جس کے پاس ہو اسے جیت سے کون روک سکتا ہے؟ جیسے فائنل میں جب مسلسل وکٹیں گرنے سے اسلام آباد مشکل سے دوچار ہو گیا تھا، تب آصف نے جس جرات سے بلےبازی کی اور صرف 6 گیندوں پر 26 رنز بنا کر ٹیم کو چیمپیئن بنوایا، وہ خود پشاور زلمی کے لیے بھی حیران کن تھا۔ جب صرف 20 رنز کے اضافے پر چھ وکٹیں گرگئی تھیں، تب انہوں نے شدید دباؤ میں حسن علی جیسے باؤلر کو مسلسل 3 چھکے رسید کیے اور اسلام آباد کی کامیابی کے ہیرو بن گئے۔ پی ایس ایل 3 میں آصف علی نے 169.04 کے اسٹرائیک ریٹ سے سے 213 رنز بنائے۔تاہم وہ کوئی لمبی اننگز نہ کھیل سکے، جس کی وجہ تھی ان کی بیٹنگ پوزیشن۔ وہ اکثر تب کھیلنے آتے جب آخری اوورز ہی بچے تھے، لیکن ان میں بھی آصف علی نے خود کو منوا لیا۔

ڈیرن سیمی

ڈیرن سیمی بلاشبہ پی ایس ایل کے مقبول ترین کھلاڑی ہیں۔ منتخب کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم کی قیادت بھی انہی کو سونپی جانی چاہیے کیونکہ نہ صرف بطور کپتان سیمی کا ریکارڈ بہت اچھا ہے، ایک بار چیمپیئن، ایک بار رنر اپ رہنا، لیکن ساتھ ہی قائدانہ ذمہ داریوں کو نبھانے میں بھی وہ سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف اہم مقابلے میں جس طرح زخمی ہونے کے باوجود انہوں نے جرات مندانہ اننگز کھیلی، اس کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں۔

شاہد آفریدی

ٹی20 فارمیٹ شاہد آفریدی کے بنا آج بھی ادھورا ہے کیونکہ وہ شاید دنیا کے واحد کھلاڑی ہیں جو کسی وقت کچھ بھی کر سکنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ وہ کیچ تو سبھی کو یاد ہوگا جو شاہد آفریدی نے باؤنڈری لائن پر لیا تھا؟ ایک چھکے کے لیے جاتی ہوئی گیند کو حاضر دماغی سے پکڑنا ایسا لمحہ تھا جس نے پی ایس ایل کو سیزن کے آغاز ہی میں یکدم عروج پر پہنچا دیا۔ پھر طرح بلےبازی میں "لالا" کا دن ہو تو مشکل مرحلے پر اوپر تلے 4 چھکے لگا کر منظرنامہ بدل دیا۔ کرکٹ کے بہترین اور مقبول ترین "انٹرٹینر" شاہد آفریدی گیند بازی میں تو میچ کا تنہا پانسا پلٹ سکتے ہیں۔ ایونٹ میں شاہد آفریدی نے کل 13 وکٹیں حاصل کیں۔ بدقسمتی سے بدقسمتی شاہد آفریدی سیزن کے دوران دو مرتبہ زخمی ہوئے یہاں تک کہ ایلی منیٹر میں بھی نہیں کھیل سکے، جس کا اثر کراچی کنگز کے مورال پر پڑا اور وہ باہر ہو گیا۔

فہیم اشرف

شاید ہی کسی نے اندازہ لگایا ہو کہ پاکستان سپر لیگ کے تیسرے سیزن میں سب سے زیادہ وکٹیں فہیم اشرف لیں گے۔ اپنی محنت اور لگن سے انہوں نے 11 میچز میں سب سے زیادہ 18 وکٹیں لیں اور کئی تجربہ کار اور بڑے ناموں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ گیندبازی کے علاوہ فہیم جارحانہ بلےبازی کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور مشکل مرحلے پر ٹیم کے کام آئے ہیں۔ پشاور زلمی کے خلاف ایک مقابلے میں انہوں نے نصف سنچری بھی بنائی۔ لیکن بلے بازی میں وہ فاتحانہ چھکا سب کو یاد رہے گا جس کے ذریعے انہوں نے اسلام آباد کو ایک مرتبہ پھر پی ایس ایل چیمپیئن بنایا۔

محمدنواز

اس پی ایس ایل میں اسپن گیند بازوں کے ذریعے باؤلنگ کے آغاز نے بڑے اچھے نتائج دیے لیکن جس نے اس رحجان کا آغاز کیا وہ محمد نواز تھے۔ محمد نواز پی ایس ایل ہی کی دریافت ہیں اور ہر سیزن میں انہوں نے خود کو منوایا ہے۔ محدود فارمیٹ میں اسپنرز کا اصل کام رنز کی رفتار کو قابو کرنا بھی ہوتا ہے جس میں نواز زیادہ تر کامیاب رہے۔ جیسے لاہور کے مقابل 4 اوورز میں صرف 2رنز کے عوض 4 قلندروں کو ٹھکانے لگایا تھا۔ نواز کا کمال یہ ہے کہ اس نے انتہائی کم شرح سے 7وکٹیں حاصل کیں۔

عثمان خان شنواری

بائیں ہاتھ سے تیز گیندبازی کرنے والے ایک اور باؤلر عثمان شنواری نے ایک جینوئن وکٹ ٹیکر ہیں۔ یہ کراچی کنگز کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں ایسا فوکسڈ کھلاڑی ملا جو کسی بھی لمحے میچ کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مضبوط بیٹنگ لائن اپ کی حامل اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف 17 رنز کے عوض 4 وکٹیں حاصل کرنا بہت بڑی بات ہے ۔ وہ سیزن میں 16 وکٹیں حاصل کرکے فہیم اشرف سے صرف 1 وکٹ پیچھے رہے، جو قابل تعریف کارکردگی ہے۔

وہاب ریاض

ویسے تو پاکستان سپر لیگ میں کئی بہترین گیندباز نظر آئے لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سب سے زیادہ تجربہ کار اور مؤثر تھے وہاب ریاض۔ انہوں نے ماضي میں بھی بڑے بڑوں کو بے بس کیا اور اس سیزن میں بھی فہیم اشرف کے برابر 18 وکٹیں حاصل کیں۔ بس ایوریج کے معمولی فرق کی وجہ سے پیچھے رہے۔ لیکن ان کی مونچھوں اور وکٹوں نے اس بار کافی تہلکہ مچایا۔ بلے بازی میں بھی انہوں نے وقت پر ٹیم کا بہترین ساتھ دیا جیسا کہ فائنل میں پشاور زلمی کی ڈوبتی نیّا کو آخری اوورز میں شاندار بلےبازی سے قابل عزت مقام تک پہنچا دیا یعنی مشکل مرحلے پر وہاب ریاض کو گیند تھمائی جائے یا بلّا، وہ اپنا کام بھرپور انداز میں کرتے ہیں۔