[آج کا دن] پاکستان پہلی بار انڈر-19 ورلڈ چیمپیئن بنا
ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے کھلاڑیوں کے ساتھ کیا ہوا؟
جب بات ہو خام ٹیلنٹ کی تو پاکستان ہمیشہ سے ایک زرخیز علاقہ رہا ہے۔ دنیائے کرکٹ کو اِس سرزمین سے کئی اسٹارز ملے، جو بہت کم عمری میں سامنے آئے اور آتے ہی چھا گئے۔ وسیم اکرم اور وقار یونس سے شروع کریں تو آج نسیم شاہ اور شاہین آفریدی تک، یہ سب کم عمری میں ہی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے میں کامیاب ہوئے۔
ان جیسے باصلاحیت نوجوانوں کو آزمانے کا سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے انڈر-19 ورلڈ کپ اور آج وہ دن ہے جب پاکستان نے پہلی بار یہ ورلڈ کپ جیتا تھا۔
یہ انڈر-19 ورلڈ کپ 2004ء تھا، جس کے فائنل میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو 25 رنز سے شکست دی اور پہلی بار ورلڈ کپ ٹرافی اٹھائی تھی۔
یہ ورلڈ کپ بنگلہ دیش میں کھیلا گیا تھا جس کے پہلے مرحلے میں پاکستان اپنے گروپ کے تمام میچز جیت کر سپر لیگ مرحلے میں پہنچا۔ یہاں انگلینڈ سے شکست تو کھائی لیکن باقی دونوں مقابلوں میں کامیابی اسے سیمی فائنل تک پہنچا گئی۔ جہاں مقابلہ کسی اور سے نہیں، روایتی حریف بھارت سے تھا۔
بنگابندھو نیشنل اسٹیڈیم میں پاکستان نے ایک لو-اسکورنگ مقابلے میں بھارت کو پانچ وکٹوں سے کامیابی حاصل کی اور دوسری مرتبہ ورلڈ کپ فائنل تک رسائی حاصل کی۔ جی ہاں! پاکستان اس سے پہلے 1988ء کے پہلے انڈر-19 ورلڈ کپ کا فائنل بھی کھیل چکا تھا لیکن آسٹریلیا سے ہار گیا تھا۔
بہرحال، اب فائنل میں پاکستان کا مقابلہ ویسٹ انڈیز سے تھا، جو انگلینڈ کو با آسانی ہرا کر یہاں تک پہنچا تھا۔
فائنل میں ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کرتے ہوئے پاکستان کی آدھی ٹیم صرف 81 رنز پر آؤٹ ہو چکی تھی۔ یہاں آصف اقبال کے 54 اور سلیمان قادر کے 42 رنز نے اننگز کو سنبھالا اور 50 اوورز مکمل ہوئے تو پاکستان کا اسکور 230 رنز تک پہنچ چکا تھا۔
طارق محمود اور جہانگیر مرزا کی عمدہ باؤلنگ کی بدولت پاکستان نے با آسانی اس ہدف کا دفاع کیا۔ ویسٹ انڈیز 205 رنز پر آل آؤٹ ہوا اور پھر کپتان خالد لطیف نے پوری ٹیم کے ساتھ ورلڈ کپ کا جشن منایا۔
انڈر-19 ورلڈ کپ 2004ءفائنل |
||
پاکستان230/950 اوورز |
پاکستان 32 رنز سے جیت گیاپلیئر آف دی میچ: آصف اقبال |
ویسٹ انڈیز205/947.1 اوورز |
ایک المیہ
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ورلڈ چیمپیئن اسکواڈ کا کوئی ایک رکن بھی قومی ٹیم میں مستقل جگہ نہیں بنا سکا۔ کپتان خالد لطیف، فواد عالم، ذوالقرنین حیدر اور ریاض آفریدی کو چند مواقع ملے لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ فواد تو تمام تر صلاحیتوں کے باوجود عرصہ دراز تک نظر انداز ہوتے رہے۔
پاکستان کے مقابلے میں اسی ورلڈ کپ میں کھیلنے والے دیگر ملکوں کے کھلاڑیوں کو دیکھ لیں۔ فائنل میں پاکستان سے ہارنے والی ویسٹ انڈین ٹیم کے کپتان دنیش رامدین تھے۔ ان کے علاوہ لینڈل سیمنز اور روی رامپال بھی عرصے تک ویسٹ انڈیز کی نمائندگی کرتے رہے۔
پھر بھارت کے شیکھر دھاون، جنہوں نے اس ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ رنز بنائے تھے، سریش رائنا، ایشانت شرما اور آر پی سنگھ، انگلینڈ کے ایلسٹر کُک، ایون مورگن، سمت پٹیل، روی بوپارا اور ٹم بریسنن، نیوزی لینڈ کے بی جے واٹلنگ، یہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ یہ سب اسی ورلڈ کپ میں کھیلے تھے اور چند تو ایسے ہیں جو آج تک عالمی منظرنامے پر چھائے ہوئے ہیں۔
ان کے مقابلے میں پاکستانی کھلاڑیوں کو کتنے مواقع ملے؟ خود اندازہ لگا لیں: کپتان خالد لطیف کو 5 ون ڈے اور 13 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھلائے گئے۔ ذوالقرنین حیدر کو صرف 1 ٹیسٹ، 4 ون ڈے اور 3 ٹی ٹوئنٹی بلکہ ورلڈ کپ میں پاکستان کے لیے سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے ریاض آفریدی کو تو صرف 1 ٹیسٹ ملا۔
کہنے کو تو پاکستان نے فواد عالم کو 15 ٹیسٹ اور 38 ون ڈے کھلائے ہیں لیکن ان کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ صرف دو ٹیسٹ کھلانے کے بعد انہیں ٹیم سے باہر کر دیا گیا، باوجود اس کے کہ ان کی کارکردگی بہترین تھی۔ پھر سالہا سال تک فواد کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا، حالانکہ وہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں رنز کے انبار لگا رہے تھے۔ تقریباً 11 سال کے بعد انہیں قومی ٹیم میں واپس بلایا گیا اور اب وہ اِس عمر میں کھیلتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
ایک نہیں دو ورلڈ کپ
پاکستان نے 2006ء میں اپنے ورلڈ کپ کا بھرپور دفاع کیا لیکن اس کے بعد سے آج تک دوبارہ انڈر-19 ورلڈ چیمپیئن نہیں بن سکا۔ 2010ء اور 2014ء میں بہت قریب پہنچا لیکن فائنل میں شکست کھائی اور رواں سال ہونے والے ورلڈ کپ میں تو سیمی فائنل تک بھی نہیں پہنچ پایا۔