'ٹیم انڈیا' کی صلاحیتوں کو برباد کرنے کا اصل ذمہ دار بی سی سی آئی
تحریر: سلمان غنی، پٹنہ، بھارت
ایک انتہائی اہم معرکے پر بھیجی گئی اس فوج کی حالت کیا ہو سکتی ہے جس کی ایک معتدبہ جماعت کے اعصاب کسی سابق غیر ضروری معرکے کی وجہ سے جواب دے چکے ہوں اور ایک اچھی خاصی تعداد طویل عرصہ سے جنگ کی صعوبتوں سے آزاد رہی ہو؟ ایسی فوج سے میدان جنگ میں بلند توقعات وابستہ کر لینا کہاں کی عقلمندی ہے؟ فن حرب و ضرب کی معمولی فہم رکھنے والا انسان بھی بہ آسانی اس بات کا اندازہ کر سکتا ہے کہ ایسی فوج دشمن کا مقابلہ تو کجا، میدان میں مزاحمت بھی نہیں کر سکتی۔ اسے شکست ہی نہیں بلکہ ذلت آمیز اور رسوا کن شکست سے دوچار ہو جانے پر کسی کو تعجب ہو تو ایسے شخص کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اسے یا تو میدان جنگ میں پیش آنے والی مشقتوں کا اندازہ نہیں یا پھر اسے سرے سے اس بات کا علم نہیں کہ کسی اہم معرکے پر بھیجی جانے والی فوج کی صلاحیتوں کا کیا معیار ہونا چاہیے۔ ایسے شخص کو اس بات کا قطعی حق نہیں کہ وہ اس ناکامی اور نامرادی پر واویلا مچائے۔ کیونکہ انصاف یہی کہتا ہے کہ اس فوج سے زیادہ وہ لوگ اس رسوائی اور ناکامی کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے ایسی فوج کو میدان جنگ میں مرنے کے لئے بھیج دیا۔ اِس کا گناہ اُن کے سر زیادہ ہے جو جوانوں کی اہلیت کا پہلے سے ہی خیال رکھتے ہوئے ایسی نفری کی تشکیل دینے کے ذمہ دار تھے جو نیم حراساں اور نیم شکستہ نہ ہو۔ ایسی فوج کو برا بھلا کہنا اور اسے تنقید کا نشانہ بنا کر مزید حراساں اور پریشان کرنا سوائے ظلم کے اور کچھ نہیں۔
بھارتی کرکٹ ٹیم کے ساتھ ابھی یہی سلوک رواں ہے۔ اس ٹیم کی مثال اسی فوج کی سی ہے ۔ دورۂ انگلستان کے لئے منتخب کئے جانے والے تقریباً تمام کھلاڑی 4 مہینوں کی طویل مدت سے مسلسل کرکٹ کھیل رہے تھے۔ انہیں عالمی کپ کے بعد بھی آرام کا موقع نہیں دیا گیا۔ یہ بورڈ کی ذمہ داری تھی کہ عالمی کپ کے بعد دو اہم معرکوں دورۂ ویسٹ انڈیز اور دورۂ انگلستان کو مد نظر رکھتے ہوئے آئی پی ایل جیسے غیر اہم ایونٹ کی تاریخوں میں ترمیم کی جاتی۔ لیکن بورڈ کے سامنے قومی مفاد سے زیادہ پیسوں کی اہمیت تھی۔ نہ آئی پی ایل کی تاریخوں پر غور کیا گیا اور نہ اس بات کو کوئی اہمیت دی گئی کہ دورۂ ویسٹ انڈیز کے بعد ٹیم انڈیا کو انگلستان جیسی مضبوط ٹیم سے بر سر پیکار ہونا ہے۔
کھلاڑیوں کو قصور وار ٹھیرانا اس لئے ناانصافی ہے کیونکہ خود ٹیم انتظامیہ کو اس بات کا شعور نہیں کہ ٹیسٹ کرکٹ کے لئے کس قسم کی تیاریاں قبل از وقت کرائی جانی چاہئیں۔ انتظامیہ نے ٹیم کے سرکردہ کھلاڑیوں کوآئی پی ایل کے اعصاب شکن پروگرام میں اپنی طاقت و قوت ضائع کرنے کا موقع فراہم کیا۔ یہ کھلاڑی ایک طویل عرصہ سے ٹیسٹ کرکٹ سے دور تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دورۂ ویسٹ انڈیز کے لئے بہترین ٹیم کا انتخاب کیا جاتا تاکہ انگلینڈ جیسی مضبوط ٹیم کے خلاف ٹیسٹ کھیلنے کے لئے ٹیم انڈیا پوری طرح تیار ہو۔ لیکن بورڈ نے آئی پی ایل کے ذریعے ٹیم کی طاقت کو تباہ و برباد کر دیا۔ جس کے نتیجہ میں ٹیم انڈیا کے سر سے ٹیسٹ ٹیموں میں سر فہرست رہنے کا تاج اتر گیا۔
شاید بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ کی خواہش بھی یہی تھی کہ ٹیم انڈیا ٹیسٹ کرکٹ میں نمبر ون مقام سے پھسل جائے وہ اس لئے کیونکہ بورڈ کو اب ٹیسٹ کرکٹ کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اور ہو بھی کیوں ٹی 20 اور آئی پی ایل کی دولت سے وہ اس قدر مالا مال ہو چکا ہے کہ اسے اب اس پرانی اور باسی غذا کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ اگر بھارتی کرکٹ ٹیم ٹیسٹ کرکٹ میں سر فہرست بنی رہتی تو لوگوں کی امیدیں اور توقعات بھی اپنی ٹیم سے قائم رہتے۔ جس کے سبب بورڈ کو لا محالہ قومی ٹیسٹ کرکٹ کے لئے مستقبل میں ’’کچھ نہ کچھ‘‘ کرنے کی ضرورت پیش آتی رہتی۔
ٹیم انڈیا کے سر سے یہ تاج اتر جانے کے بعد بورڈ کی پریشانیاں بھی یقیناً کم ہو چکی ہوں گی۔ اب بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ ٹی 20 اور آئی پی ایل پر مزید بہتر طریقہ سے اپنی توجہ مرکوز کر سکے گا۔