سچن ڈریوڈ ’فتح گر‘ کھلاڑی نہیں
ہو سکتا ہے میں غلط ہوں لیکن اپنی دانست میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ دنیا بھر کے بلے باز کسی نہ کسی حد تک خود غرض ہوتے ہیں اور ریکارڈز کے لیے کھیلتے ہیں۔ پاکستان کے پاس بھی مطلبی بلے باز ہیں۔ وہ بسا اوقات اپنے لیے کھیلتے ہیں، اور فتوحات میں اپنا حصہ نہیں ڈالتے۔ زیادہ تر گیند باز اِس پر اُنہیں تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ بھارت عظیم بلے بازوں کا حامل ہے، لیکن جب بھی ان میں سے کوئی میدان میں اترتا ہے، ہم یہ سوچنے لگتے ہیں کہ لو بھئی، ریکارڈز کی تلاش کے لیے کئی اوورز ضایع کرنے والا ایک اور بلے باز آ گیا۔ میرے خیال میں سچن ٹنڈولکر اور راہول ڈریوڈ جیسے بلے باز فتح گر کھلاڑی نہیں ہیں، اور نہ ہی وہ میچ کو اختتام تک پہنچانے یعنی فنش کرنے کا فن رکھتے ہیں۔ وریندر سہواگ اور یووراج سنگھ جیسے نوجوان کھلاڑیوں کی آمد سے صورتحال تبدیل ہوئی، جو ریکارڈز کے لیے نہیں بلکہ فتح کے لیے کھیلتے ہیں۔
ہماری ٹیم بھارت کو فتوحات کی راہ پر گامزن کرنے کا سہرا سہواگ کے سر باندھتی تھی۔ گوتم گمبھیر اور سہواگ نے بھارت کو برق رفتار اور حیران کن شراکت داریاں دیں۔ اُن سے قبل صرف سچن بیچارہ اپنے کاندھوں پر پورا بوجھ اٹھاتا تھا۔ اُس کے ساتھ ڈریوڈ ہوتا تھا، جس کے پاس زبردست تکنیک ہے لیکن وہ کبھی بھی ایک فتح گر کھلاڑی نہیں رہا۔
نوجوان کھلاڑیوں کی آمد کے ساتھ بھارتی ٹیم نے ٹیسٹ کی درجہ بندی میں پہلا مقام حاصل کر لیا ہے – یہ فرق اِن نوجوانوں کی محنت سے آیا ہے۔ اور سچن نے بھی تیزی سے اسکور کرنا شروع کر دیا ہے اور اپنی ٹیم کے لیے فتح گر کھلاڑی کا کردار نبھاتے ہوئے کھیل رہے ہیں۔ مجھے سچن کے ابتدائی ایام میں سے کوئی ایک بھی سیریز یاد نہیں کہ جب اُنہوں نے میچ جیتنے میں مدد دی ہو۔ لیکن اب، سہواگ، یووراج، گمبھیر، ویرات کوہلی اور دیگر کی مدد کے ساتھ، جو خود زبردست بلے باز ہیں، وہ بھارت کے لیے میچ جیتتے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب سے یہ صفحہ نکال دیا ہے اور اب خوبصورتی سے بیٹنگ کرتے ہیں۔ اب وہ ایک مکمل بلے باز ہیں۔ براہ مہربانی مجھے غلط مت سمجھئے گا۔ میرے خیال میں وہ ہمیشہ ایک عظیم بلے باز تھے، اگر دنیا کے عظیم ترین بلے باز نہیں تب بھی عظیم تو تھے ہی، اور میں اُن کی غیر معمولی صلاحیتوں کا بھی معترف ہوں۔ لیکن میرے لیے جیتنا ہی سب کچھ ہے۔ ویون رچرڈز، رکی پونٹنگ، برائن لارا اور ان جیسے مزید عظیم کھلاڑی ہیں جنہوں نے بلے کے ذریعے اپنی برتری ثابت کی اور حقیقی فتح گر کھلاڑی کہلائے۔ ابتداء میں جب میں نے سچن کو باؤلنگ کی تو میں نے پایا کہ اس میں اِن خصوصیات کی کمی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ بہت رنز بنائے اور کئی ریکارڈز اپنے نام کرے لیکن وہ میچ کو اختتام تک پہنچانے کی صلاحیت کی کمی کا شکار ہے۔ یعنی ’اپنے رن لیے اور آؤٹ ہو گئے‘۔ لیکن گزشتہ تین سالوں میں، میں دیکھ سکتا ہوں کہ انہوں نے اپنے کھیل کو تبدیل کیا ہے۔ اس نئی بھارتی ٹیم میں ذمہ داریاں تقسیم شدہ ہیں اور اس صورتحال میں سچن زیادہ آسانی محسوس کر رہے ہیں۔ اب اُن کو دیکھیں: انہوں نے ایک میچ میں 200 رنز بنائے اور ٹیم جیت گئی۔ 1999ء میں، چنئی میں، یہی بلے باز 150 رنز بناتا ہے اور پھر بھی اس کی ٹیم ہار جاتی ہے۔ یہی فرق ہے۔ جس کلچر سے میں آیا ہوں، لوگ ہمیں مقابلے جیتتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ صرف وکٹ پر موجود رہنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔
(یہ اقتباس شعیب اختر کی سوانحِ عمری 'کنٹروورشلی یورز' سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے دیگر ترجمہ شدہ اقتباسات یہاں سے پڑھے جا سکتے ہیں۔)