وزڈن ٹرافی تیسرا ٹیسٹ، بارش کے باعث بے نتیجہ مگر یادگار مقابلہ
انگلستان-ویسٹ انڈیزتیسرا ٹیسٹ انگلش سرزمین پر کھیلے گئےان چند مقابلوں میں سے ایک ہوگا جس کے پورے تین دن بارش کی نذر ہو گئے لیکن باقی دو دنوں میں اتنی ہنگامہ خیزی ہو گئی کہ یہ ٹیسٹ کئی حوالے سے مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ سب سے اہم گیارہویں نمبر پر ویسٹ انڈین باؤلر ٹینو بیسٹ کی ریکارڈ 95 رنز کی اننگز اور ان کے ہم وطن وکٹ کیپر بیٹسمین دنیش رام دین کا سنچری بنانے کا اپنے ناقدین کو منہ توڑ جواب دینا شامل ہے۔
بہرحال، ویسٹ انڈیز کی انگلستان 2-0 سے وزڈن ٹرافی با آسانی جیت گیا اور ویسٹ انڈین ٹیم کی کئی کمزوریوں کو مزید نمایاں کر گیا لیکن تیسرے ٹیسٹ کے صرف دو روز کے کھیل میں ویسٹ انڈیز ہی مکمل طور پر حاوی رہا۔ پہلی اننگز میں آخری وکٹ پر 143 رنز کی شراکت داری نے اسے 426 کے زبردست مجموعے تک پہنچایا تو دوسری جانب اس نے 221 رنز پر انگلستان کے 5 بلے بازوں کو ٹھکانے لگا کر میچ میں دلچسپ صورتحال پیدا کر دی لیکن آخری روز ایک مرتبہ پھر بارش نے کھیل ممکن نہ ہونے دیا اور میچ بے نتیجہ قرار پایا۔
برمنگھم میں کھیلے گئے اس میچ کی سب سے ’گرم خبر‘ چوتھے روز کھانے کے وقفے سے قبل آئی جب دنیش رام دین نے اپنے کیریئر کی دوسری سنچری بنائی اور اس کے بعد بجائے اچھل کود کر اس کا جشن منانے کے انہوں نے غصے کی حد تک سنجیدگی سے اپنے پاجامےکی جیب سے ایک رقعہ نکالا جس پر عظیم ویسٹ انڈین بلے باز سر ویوین رچرڈز کے نام ایک پیغام تھا جنہوں نے حال ہی میں دنیش کی بلے بازی کی صلاحیت پر تنقید کی تھی۔ میڈیا باکس کی جانب لہرا کر دکھائے گئے کاغذ کے پرزے پر لکھا تھا 'Yea, Viv, talk nah' یعنی ’ہاں، ویو، بول نا‘۔ یہ لیجنڈری بلے باز کی تنقید کا جواب تھا جو ایک حد تک بدتمیزانہ بھی تھا۔ خود بعد ازاں دنیش نے کہا کہ جواب تو میں اپنے بلے کے ذریعے دے چکا تھا اس لیے کاغذ لہرانا غیر ضروری تھا اور میں سر ویوین اور دیگر عظیم کھلاڑیوں کی دل سے عزت کرتا ہوں اور اس حرکت کا مقصد ہر گز ان کی تذلیل کرنا نہیں تھا۔
لیکن یہ معافی بھی انہیں 20 فیصد میچ فیس کے جرمانے سے نہ بچا سکی جو مقابلہ ختم ہونے کے بعد میچ ریفری روشن مہاناما نے ان پر عائد کیا اور ساتھ ہی انہوں نے خبردار بھی کیا کہ آئندہ دنیش اور دنیا کا کوئی بھی کھلاڑی اہم سنگ میل عبور کرنے کے بعد موقع کو ناقدین کو جواب دینے اور نازیبا حرکت کرنے کے لیے استعمال نہیں کرے گا۔
میچ کے سب سے مزیدار لمحات وہ تھے جب چوتھے روز پہلے سیشن میں روی رامپال کے آؤٹ ہونے کے بعد ٹینو بیسٹ میدان میں اترے۔ 2009ء کے بعد اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے ٹینو بیسٹ کو شینون گیبریل کی کمر میں تکلیف کے بعد سیریز سے باہر ہونے کے بعد طلب کیا گیا تھا اور انہوں نے کیا یادگار کارکردگی دکھائی۔ انگلش کنڈیشنز میں ’گھر کے شیر‘ تسلیم کیے جانے والے انگلش باؤلرز کو انہوں نے جس طرح دھویا، ویسے تو اچھے خاصے بلے باز نہیں کرتے۔ وہ ایک عظیم ریکارڈ کو حاصل کرنے کے قریب پہنچ گئے لیکن بدقسمتی سے گیارہویں نمبر پر سنچری بنانے والے پہلے بلے باز نہ بن سکے اور 95 رنز پر گراہم اونینز کی وکٹ بن گئے۔ انہوں نے 14 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 112 گیندوں پر اتنے رنز بنائے۔ ان کا بھرپور ساتھ دیا دنیش رام دین نے جو 183 گیندوں پر 9 چوکوں کے ساتھ 107 رنز بناکر ناقابل شکست رہے۔
بیسٹ کی اننگز اس لحاظ سے بھی ’بیسٹ‘ تھی کہ انہوں نے یہ کارنامہ عالمی نمبر ایک ٹیم کے خلاف اسی کے میدان پر اور گیند بازوں کے لیے انتہائی سازگار ماحول میں انجام دیا۔ اگر وہ 5 رنز مزید بنادیتے تو امر ہو جاتے لیکن پھر بھی گیارہویں نمبر کے کھلاڑی کی جانب سے سب سے طویل اننگز کااعزاز تو انہوں نے حاصل کر ہی لیا جو اس سے قبل بھارت کے ظہیر خان کے پاس تھا۔
ان دونوں سے قبل ٹاپ آرڈر کی نسبتاً بہتر کارکردگی اور بعد ازاں ان فارم مارلون سیموئلز کے 76 رنز نے ویسٹ انڈیز کو مناسب مقام پر پہنچایا لیکن یکے بعد دیگرے وکٹیں گر جانے کے بعد کیریبین ٹیم کی اننگز 300 رنز سے قبل ختم ہوتی دکھائی دے رہی تھی لیکن دنیش رام دین اور ٹینو بیسٹ کی 143 رنز کی شراکت داری نے انگلش باؤلرز کے چھکے چھڑا دیے۔ یہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں گیارہویں پوزیشن پر دوسری بہترین رفاقت ہے۔ سب سے بڑی شراکت داری کا ریکارڈ نیوزی لینڈ کے برائن ہیسٹنگز اور رچرڈ کولنج کے پاس ہے جنہوں نے فروری 1973ء میں پاکستان کے خلاف آکلینڈ ٹیسٹ میں آخری وکٹ پر 151 رنز جوڑ کر پاکستان کے 402 رنز کا بھرپور جواب دیا تھا۔ اکتوبر 1997ء میں راولپنڈی میں پاکستان کے اظہر محمود اور مشتاق احمد نے جنوبی افریقہ کے خلاف اتنے ہی رنز کی رفاقت قائم کر کے اس ریکارڈ کو برابر کیا تھا۔ تاہم اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ جتنی مزیدار شراکت داری ٹینو بیسٹ اور دنیش رام دین کی تھی وہ کسی کی نہیں ہوگی۔ (تفصیلات یہاں ملاحظہ کیجیے)۔
انگلستان کی جانب سے گراہم اونینز نے 4 اور ٹم بریسنن اور اسٹیون فن نے 3،3 وکٹیں حاصل کیں۔
جواب میں انگلستان کا جواب ویسا نہ تھا۔ ابتداء ہی میں ایلسٹر کک کی وکٹ گنوانے کے بعد وہ 50 رنز سےپہلے جوناتھن ٹراٹ اور اینڈریو اسٹراس کی قیمتی وکٹیں بھی گنوا بیٹھا۔ اس موقع پر کیون پیٹرسن اور این بیل نے 137 رنز کی رفاقت قائم کی اور میچ کو ہاتھ سے نکلنے سے بچایا۔ کیون پیٹرسن نے روایتی تیز انداز میں 81 گیندوں پر ایک چھکے اور 11 چوکوں کی مدد سے 78 رنز بنائے جبکہ چوتھے روز کے کھیل کے اختتام پر این بیل 76 رنز کے ساتھ ناقابل شکست رہے۔ انگلستان کا اسکور 221 رنز پانچ کھلاڑی آؤٹ رہا اور آخری روز مزید دلچسپ کرکٹ کی توقع تھی لیکن بارش نے ایک اور دن ضایع کر دیا۔
بہترین بلے بازی کے علاوہ ٹینو بیسٹ نے اپنی باؤلنگ کے بھی جوہر دکھائے اور 37 رنز دے کر 2 وکٹیں حاصل کیں۔ ایک، ایک وکٹ رامپال، ڈیرن سیمی اور سیموئلز کو بھی ملی۔
ٹینو بیسٹ کو 95 رنز اور 2 وکٹوں پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا جبکہ انگلستان کے لیے سیریز کے بہترین کھلاڑی کپتان اینڈریو اسٹراس اور ویسٹ انڈیز کے لیے مارلون سیموئلز رہے۔
یوں وزڈن ٹرافی تو انگلستان کے پاس ہی رہی اور ٹیسٹ کی عالمی درجہ بندی میں اس کی سرفہرست پوزیشن کو لاحق ایک اور خطرہ ٹل چکا لیکن ایک کمزور حریف کو کچلنے کے بعد اینڈریو اسٹراس کا اگلا امتحان عالمی نمبر دو جنوبی افریقہ کے خلاف ہوگا جہاں انگلستان کے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ ذرا سی بھی چوک انہیں عالمی نمبر ایک سے محروم کر سکتی ہے۔
ویسے فوری طور پر اسٹراس مطمئن ہیں کیونکہ وہ صرف ٹیسٹ کپتان ہیں اور انہیں جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز کا انتظار کرنا ہوگا جبکہ بقیہ ٹیم تین ایک روزہ اور واحد ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں ویسٹ انڈیز کا سامنا کرے گی۔ اس سیریز کاآغاز سنیچر کو ساؤتھمپٹن میں پہلے ون ڈے سے ہوگا۔ اس سیریز میں ویسٹ انڈیز انگلستان کا سخت مقابلہ کر سکتا ہے کیونکہ مشہور زمانہ کرس گیل بورڈ کے ساتھ تمام تنازعات حل ہونے کے بعد ایک مرتبہ پھر ایکشن میں نظر آئیں گے۔ ان کی واپسی ’فائٹنگ اسپرٹ‘ رکھنے والی ویسٹ انڈین ٹیم کے مورال میں زبردست اضافہ کرے گی۔