[وڈیوز] پاک-سری لنکا ٹیسٹ، امپائروں کے کارنامے

8 1,036

پاکستان اور سری لنکا کے مابین ٹیسٹ سیریز اب اہم مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور کل یعنی سنیچر سے کولمبو کے سنہالیز اسپورٹس کلب میں شروع ہونے والا مقابلہ سیریز کے فیصلے میں مرکزی کردار ادا کرے گا۔

میچ کا فیصلہ کن ترین لمحہ وہ تھا جب پہلی اننگز میں یونس خان امپائر کے ایک ناقص فیصلے کا نشانہ بنے اور پاکستان 100 رنز پر ڈھیر ہوا (تصویر: AFP)
میچ کا فیصلہ کن ترین لمحہ وہ تھا جب پہلی اننگز میں یونس خان امپائر کے ایک ناقص فیصلے کا نشانہ بنے اور پاکستان 100 رنز پر ڈھیر ہوا (تصویر: AFP)

پہلے ایک روزہ مقابلے میں شکست کے بعد مسلسل فتوحات سمیٹنے والا سری لنکا گال میں ٹیسٹ کے دوران اپنی کارکردگی کے عروج پر پہنچا اور پاکستان کے کھیل کے تمام شعبوں میں چت کرتے ہوئے تاریخی فتح سمیٹی لیکن اس جیت کا ایک ناپسندیدہ پہلو امپائرنگ کا وہ گھٹیا معیار تھا جو بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے منتخب کردہ دنیا کے بہترین امپائروں کے پینل میں شامل این گولڈ اور اسٹیو ڈیویس نے ادا کیا۔ دونوں نے گال ٹیسٹ میں کم از کم ڈیڑھ درجن ایسے فیصلے کیے جس نے کسی ایک فریق کی پیشرفت کو سخت نقصان پہنچا۔ ان میں سے کم از کم ایک درجن فیصلے بدقسمتی سے پاکستان کے خلاف گئے، جس کی کارکردگی ویسے ہی روبہ زوال تھا۔ اس پر امپائروں کے فیصلوں نے ”مرے ہوئے پر سو درّے“ کا کام کیا۔

کرک نامہ کو ان میں سے چند فیصلوں کی وڈیو ریکارڈ کرنے کا موقع ملا ۔ ذرا ملاحظہ کیجیے پہلی اننگز میں یونس خان کو ایل بی ڈبلیو دیا جانے کا فیصلہ۔ اک ایسے موقع پر جب پاکستان 472 رنز کے جواب میں 44 رنز پر اپنی پانچ وکٹیں گنوا چکا تھا اور اس کے مقابلے میں واپس آنے کا تمام تر انحصار یونس خان اور باقی رہ جانے والے بلے بازوں کی کارکردگی پر تھا۔ امپائر اسٹیو ڈیویس نے گیند کا بلے کا کنارہ لینے کے باوجود یونس خان کو ایل بی ڈبلیو قرار دیا اور پہلی اننگز میں پاکستان کو فیصلہ کن ضرب لگا دی۔ یہی وجہ ہے کہ قومی ٹیم 100 رنز پر تمام ہوئی اور اسے 372 رنز کے ہمالیہ جیسے خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔

اس سے کچھ دیر قبل ہی امپائر پاکستان کے نائٹ واچ مین سعید اجمل کو قریب کھڑے فیلڈر کے ہاتھوں کیچ آؤٹ قرار دے چکے تھے۔ سعید اجمل حریف اسپنر سورج رندیو کی ایک اندر آتی گیند کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے کہ گیند ان کے بلے کو چھوئے بغیر پیڈ اور ران سے ٹکرا کر اچھلی اور قریبی کھڑے فیلڈر تھارنگا پرناوتنا نے ان کا آسان کیچ لے لیا۔ قریب کھڑے تمام سری لنکن کھلاڑیوں نے اپیل کی اور امپائر این گولڈ نے ’اچھے بچوں‘ کی طرح میزبان ٹیم کی ’ہاں میں ہاں ملائی‘ اور سعید اجمل کو پہلی ہی گیند پر واپسی کا سفر کرنا پڑا۔

اس کے علاوہ پہلی اننگز میں متعدد ناقص فیصلوں کے بعد جب میچ تقریباً پاکستان کے ہاتھوں سے نکل چکا اس وقت بھی امپائروں کی کارروائیاں جاری رہیں۔ جب سنگاکارا 191 رنز پر کھیل رہے تھے تو سری لنکا کی نویں وکٹ گری اور آخری بلے باز نووان پردیپ ابتدا ہی میں محمد حفیظ کی گیند پر وکٹوں کے پیچھے کیچ دے بیٹھے اور پاکستانی باؤلر اور فیلڈر کی تمام تر التجاؤں کے باوجود امپائر ٹس سے مس نہ ہوئے اور پردیپ کو ملی زندگی اور سنگاکارا کو 199 رنز کے بدقسمت عدد تک پہنچنے کا موقع۔

سری لنکا کی دوسری اننگز کے دوران سعید اجمل کو سویپ کھیلنے کے دوران تلکارتنے دلشان بھی وکٹوں کے پیچھے کیچ دے بیٹھے تھے لیکن اس مرتبہ بھی انہیں امپائر نے بچا لیا۔ اگلی گیند پر وہ سعید کو چوکا لگانے میں کامیاب تو ہوئے لیکن اس کے بعد اسپنر کا غصہ بالکل واضح نظر آ رہا تھا۔ اس کے بعد جیسے دلشان اپنی نصف سنچری مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے، ان کے اور سعید کے درمیان ’منہ ماری‘ بھی دیکھنے میں آئی، جس کی وجہ واضح ہے امپائر کا وہ فیصلہ تھا جو اس وقت دیا گیا جب دلشان 48 رنزپر تھے۔

اسی اننگز میں پرسنا جے وردھنے کا وکٹوں کے پیچھے آؤٹ بھی امپائر این گولڈ کی نظروں سے نہ گزر سکا۔ ایک اندر آتی گیند کو ’دوسرا‘ سمجھ کر روکنے کی کوشش کی لیکن گیند پرسنا کے بلے کا اندرونی کنارہ لیتی ہوئی پیڈ کے بالائی حصے سے لگی اور اچھل کر وکٹ کیپر عدنان اکمل کے ہاتھوں میں گئی لیکن انہیں آؤٹ نہیں دیا گیا۔ اس موقع پر عدنان اکمل کا ردعمل قابلِ دید تھا۔

ویسے آپ کو یاد ہوگا 2008ء کے اوائل میں آسٹریلیا اور بھارت کے درمیان سڈنی میں ایک تاریخی ٹیسٹ کھیلا گیا تھا جس میں امپائر اسٹیو بکنر اور مارک بنسن نے گویا تہیہ کیا ہوا تھا کہ انہوں نے بھارت کے حق میں کوئی فیصلہ نہیں دینا۔ معاملہ کسی آسٹریلیا کے کھلاڑی کو آؤٹ دینے کا ہو یا بھارت کے کھلاڑی کو معمولی سی اپیل پر باہر بھیجنے کا۔ دونوں اینڈز، حتیٰ کے باہر بیٹھے تیسرے امپائر کی جانب سے بھی، سے بہت ’ترنت‘ کارروائی کی گئی اور بھارت کو میچ میں 122 رنز کی افسوسناک شکست کھانا پڑی۔

بھارت نے میچ میں ہار کو گوارہ نہ کیا اور بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے روبرو شکایت کی کہ آئندہ ان کے کسی مقابلے میں اسٹیو بکنر یا مارک بنسن کو مقرر نہ کیا جائے اور بالآخر ایسا ہی ہوا۔ دونوں امپائروں کو دوبارہ کبھی بھارت کا مقابلہ سنبھالنے کا ’شرف‘ حاصل نہ ہوا اور بالآخر ان کا کیریئر ہی تمام ہو گیا۔

تو آپ کا کیا خیال ہے؟ پاکستان کو ان امپائروں کی باضابطہ ”شکایت“ لگانی چاہیے؟ اور آئندہ ان کی زیر نگرانی کوئی میچ نہ کھیلنے کی دھمکی دینی چاہیے؟