[یاد ماضی] رامن لامبا کی المناک موت
ہوسکتا ہے کہ روایت پسند افراد کو کرکٹ کے حسن پر لگنے والا یہ "داغ" پسند نہ ہو، لیکن اس پر شاید ہی کوئی معترض ہو کہ ہیلمٹ متعارف کروائے جانے سے بلے بازوں اور فیلڈروں دونوں کے زخمی ہونے کو واقعات میں بہت کمی واقع ہوئی ہے۔
اس کے باوجود کرکٹ ایک خطرناک کھیل ہے۔ بلے باز تو تمام حفاظتی سازوسامان سے لیس ہوتے ہیں لیکن قریب کھڑے ہونے والے چند فیلڈر ہیلمٹ پہننے میں ہچکچاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہیلمٹ پہننے سے ردعمل دکھانے کی صلاحیت پر اثر پڑتا ہے اور توازن بھی بگڑتا ہے۔ لیکن رامن لامبا کے افسوسناک واقعے کو ضرور یاد رکھناچاہیے۔
لامبا تکنیکی طور پر کمزور لیکن جارح مزاج بلے باز تھے، جن کے کیریئر کا آغاز تو بہت شاندار انداز میں ہوا لیکن وہ ان بلندیوں کو نہ چھو سکے جس کی ابتداء میں توقع باندھ لی گئی تھی۔ انہوں نے 1986-87ء میں آسٹریلیا کے خلاف چھ ایک روزہ مقابلوں میں ایک سنچری اور دو نصف سنچریوں کے ساتھ اپنے کیریئر کا بہترین آغاز کیا، لیکن اگلے پانچ مقابلوں میں وہ صرف آٹھ رنز بنا سکے اور 1980ء کی دہائی کے اواخر میں، کئی مواقع ملنے کے بعد ، بالآخر انہیں ٹیم سے نکال دیا گیا۔ چار ٹیسٹ مقابلے بھی لاحاصل رہے اور پھر ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کے انبار لگانے کے باوجود انہیں دوبارہ کبھی قومی ٹیم کےلیے منتخب نہیں کیا گیا۔
ان حالات میں انہوں نے کلب کرکٹ کا رخ کرلیا، وہ آئرلینڈ میں کھیلے – غیر ملکی کھلاڑی کی حیثیت سے ان کی نمائندگی بھی کی – اور ایک آئرش لڑکی سے شادی بھی۔ انہوں نے بنگلہ دیش میں کلب کرکٹ بھی کھیلی، گو کہ اس وقت تک بنگلہ دیش کو بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کی اجازت نہیں ملی تھی، لیکن کلب سطح پر وہاں بہت کرکٹ کھیلی جاتی تھی، اور وہ بیرون ملک سے چند معیاری کھلاڑیوں کی توجہ بھی اپنی جانب مبذول کرالیتے تھے۔ لامبا وہاں کھیلنے والے اولین کھلاڑیوں میں سے تھے، پہلے انہوں نے 1991ء میں بنگلہ دیش میں کرکٹ کھیلی اور اپنے دوستوں کو بتاتے تھے کہ وہ "ڈھاکہ کے ڈان" ہیں۔
20 فروری 1998ء کو بنگابندھو اسٹیڈیم میں ڈھاکہ پریمیئر لیگ کے فائنل میں لامبا اباہانی کریرا چکر کی جانب سے محمڈن اسپورٹنگ کے خلاف کھیل رہے تھے کہ انہیں شارٹ لیگ کی پوزیشن پر طلب کیا گیا۔
اس مقابلے میں خالد مشہود اباہانی کی کپتانی کر رہے تھے۔ "میں ایک اوور کے لیے بائیں ہاتھ سے اسپن گیندبازی کرنے والے باؤلر کو لایا اور تین گیندوں کے بعد میں نے فیلڈنگ میں تبدیلی کا فیصلہ کیا۔ ادھر ادھر دیکھا اور مجھے رامن نظر آئے اور میں نے انہيں فارورڈ شارٹ لیگ پر کھڑا ہونے کو کہا۔" مشہود نے ان سے یہ بھی پوچھا کہ کیا ہیلمٹ کی ضرورت ہے؟ لیکن لامبا نے جواب دیا کہ "تین گیندوں ہی کی تو بات ہے، کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔"
باؤلر سیف اللہ خان کی جانب سے پھینکی گئی گیند شارٹ تھی اور بلے باز محراب حسین نے اسے پوری قوت سے پل کردیا، گیند لامبا کی پیشانی پر لگی، اتنی زور سے کہ پلٹ کر واپس وکٹ کیپر خالد مشہود کے پاس پہنچ گئ، جنہوں نے کیچ پکڑ لیا۔ "مجھے معلوم تھا کہ محراب آؤٹ ہے،" مشہود نے کہا، "لیکن جب وکٹ گرنے پر تمام کھلاڑی اکٹھے ہوئے تو ہم نے رامن کو دیکھا۔ وہ زمین پر لیٹے ہوئے تھے۔"
اس وقت ان کی حالت اتنی بہتر ضرور تھی کہ وہ کھڑے ہوئے اور ساتھی کھلاڑیوں کو یقین دلایا کہ وہ ٹھیک ہیں، اور پھر بغیر کسی سہارے کے ڈریسنگ روم تک بھی گئے۔ ٹیم ڈاکٹر نے انہیں لٹایا اور پینے کے لیے پانی دیا، لیکن چند منٹوں کے بعد لامبا نے طبیعت خراب ہونے کی شکایت کردی جس پر انہیں فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا۔ وہاں جا کر وہ بیہوش ہوگئے، جہاں بعد ازاں متعدد دورے پڑنے کے بعد ڈاکٹروں نے ان کے دماغ کے بائیں جانب بننے والا خون کا لوتھڑا نکالنے کے لیے آپریشن کیا۔ دہلی سے ایک اسپیشلسٹ ڈاکٹر ڈھاکہ پہنچے لیکن انہوں نے پہنچتے ہی کہہ دیا کہ لامبا کے بچنے کی کوئی امید نہیں۔
تین روز بعد، لامبا چل بسے۔ دہلی سے آنے والی ان کی اہلیہ کم اپنے پانچ سالہ بیٹے اور تین سالہ بیٹی کے ساتھ بستر مرگ پر ان کے ساتھ تھیں۔
خالد مشہود نے کہا کہ "وہ پہلے ایک نجی ہسپتال میں تھے اور پھر انہیں سرکاری ہسپتال منتقل کیا گیا، لیکن کافی دیر ہوچکی تھی۔ لامبا صرف اس لیے نہ بچ سکے کہ اس وقت ہمارے پاس اچھی طبی سہولیات نہیں تھیں۔"
کپل دیو نے اس وقت کہا تھا کہ "رامن کی موت ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ اس میں ہر کھلاڑی کے لیے پیغام ہے کہ وہ سانحے کو روکنے کےلیے لازماً احتیاطی تدابیر اختیار کرے۔"
اس واقعے نے بلاشبہ سب سے زیادہ محراب ہی کو متاثر کیا۔ مشہود نے بتایا کہ "وہ دو تین دن تک سو بھی نہیں پائے۔" حتیٰ کہ محراب نے کرکٹ کھیلنا تک چھوڑ دیا، لیکن بالآخر میدانوں میں واپس آئے اور بنگلہ دیش کے لیے کھیلے۔
جب لامبا کو گیند لگی تو نان اسٹرائیکر اینڈ پر سابق بنگلہ دیشی کپتان امین الاسلام موجود تھے، جن کا کہنا ہے کہ ملک کو ٹیسٹ درجہ دلانے میں لامبا کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔"اگر رامن زندہ ہوتے، تو انہیں یہ دیکھ کر بہت فخر محسوس ہوتا کہ بنگلہ دیش کرکٹ کس مقام پر پہنچ چکی ہے۔ وہ ہمیں بہت عزیز تھے، اور ہمارے بہترین کرکٹ دوستوں میں سے ایک رہیں گے۔ انہوں نے بنگلہ دیش کرکٹ کے لیے بہت کچھ کیا۔ میں نے رامن کے ساتھ گزارے گئے یادگار لمحات کے بارے میں ایک اخبار کے لیے کالم لکھا اور جب میں لکھنے بیٹھا تو اپنے آنسوؤں پر قابو نہ پاسکا۔ بنگلہ دیش لامبا سے محبت کرتا ہے، بنگابندھو اسٹیڈیم میں ایک اسٹینڈ کو ان سے موسوم کرنے کا وعدہ کیا گیا لیکن پھر پھر اس میدان پر کرکٹ ہی بندہوگئی۔"
یہ مضمون ای ایس پی این کرک انفو کے ایگزیکٹو ایڈیٹر مارٹن ولیم سن کے مضمون " The tragic death of Raman Lamba " کا ترجمہ ہے جو انہوں نے 14 اگست 2010ء کو لکھا تھا۔