فیصلہ کن مقابلے میں شکست، پاکستان کی طویل روایت

0 1,068

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ فیصلہ کن مقابلے میں اور اہم ترین مرحلے پر جنوبی افریقہ کے دماغ کی بتی بجھ جاتی ہے اور وہ شکست کھا کر مقابلے کی دوڑ سے باہر ہوجاتا ہے۔ عالمی کپ 1992ء سے لے کر 2011ء تک، اور متعدد دیگر مراحل پر بھی، اس مایوس کن روایت کو برقرار رکھنے کی وجہ سے جنوبی افریقہ کو 'چوکرز' بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن کیا آپ کو یاد ہے کہ کسی قابل ذکر حریف کے خلاف سیریز کے فیصلہ کن مقابلے میں پاکستان نے آخری فتح کب حاصل کی تھی؟ نہیں یاد نا؟ وہ تم ہم آپ کو یاد دلا ہی دیں گے لیکن پاکستان نے بقول شاعر 'عادت ہی بنا لی ہے' کہ فیصلہ کن مقابلے میں شکست سے دوچار ہو اس لیے آئندہ جنوبی افریقہ کو چوکرز کا طعنہ دینے سے پہلے دس مرتبہ سوچئے گا 🙂

اب بتا، کون چوکر ہے؟ شان پولاک 2007ء میں پاکستان کے خلاف فیصلہ کن مقابلے میں ناقابل یقین فتح حاصل کرنے کے بعد (تصویر: AFP)
اب بتا، کون چوکر ہے؟ شان پولاک 2007ء میں پاکستان کے خلاف فیصلہ کن مقابلے میں ناقابل یقین فتح حاصل کرنے کے بعد (تصویر: AFP)

پاکستان کی یہ قبیح روایت اس لیے یاد آ رہی ہے کیونکہ سری لنکا کے خلاف ایک روزہ مقابلوں کی سیریز بھی اب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ ہمبنٹوٹا میں ابتدائی دو مقابلوں میں فریقین کو ایک، ایک کامیابی نصیب ہوئی ہے اور اب کل یعنی ہفتے کو دمبولا میں حتمی معرکہ ہوگا، جہاں جیتا نہ صرف سیریز کا فاتح کہلائے گا بلکہ عالمی کپ 2015ء کی تیاریوں کا آغاز بھی شاندار فتح اور بلند حوصلوں کے ساتھ کرے گا۔ سری لنکا تو حال ہی میں کئی ایسی سیریز جیت چکا ہے جہاں سخت دباؤ میں ہونے کے باوجود اس نے مقابلے جیتے ہیں لیکن پاکستان گزشتہ 12 سالوں سے ایسے مقابلوں میں شکست کھاتا آ رہا ہے جن پر سیریز کے فیصلے کا انحصار ہوتا ہے۔ یہ چیز ثابت کرتی ہے کہ پاکستان کے کھلاڑیوں میں دباؤ جھیلنے کا فقدان ہے اور ان کے اعصاب جلد جواب دے جاتے ہیں۔

ویسے تو پاکستان نے حالیہ دورۂ زمبابوے میں، 2013ء میں، پہلے میچ میں زمبابوے کے ہاتھوں شکست کے بعد اگلے دونوں مقابلے جیت کر سیریز اپنے نام کی تھی لیکن اس کے علاوہ کسی قابل ذکر ٹیم کے خلاف پاکستان کو گزشتہ 12 سالوں میں کوئی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ پاکستان نےآخری بار 2002ء میں آسٹریلیا کے خلاف سیریز ایک-ایک سے برابر ہوجانے کے بعد فیصلہ کن مقابلے میں فتح حاصل کی تھی۔ مذکورہ سیریز میں آسٹریلیا نے پہلا مقابلہ 7 وکٹوں سے باآسانی جیتا تھا جبکہ پاکستان نے ملبورن کے چھت کے حامل ڈاکلینڈز اسٹیڈیم میں ہونے والا دوسرا میچ یونس خان کی شاندار نصف سنچری کی بدولت محض دو وکٹوں سے جیت لیا تھا۔ یوں سیریز کا فیصلہ برسبین میں ہونے والے تیسرے میچ تک موخر ہوگیا۔ جہاں پاکستان نے عمران نذیر اور یوسف یوحنا کی نصف سنچریوں میں آخر میں وسیم اکرم کے 32 گیندوں پر قیمتی 49 رنز کی بدولت 256 رنز بنائے اور بعد ازاں شعیب اختر کی تباہ کن باؤلنگ کی بدولت آسٹریلیا کو صرف 165 رنز پر ڈھیر کردیا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان میچ کے ساتھ ساتھ سیریز بھی جیت گیا۔ لیکن اس کے بعد 'چراغوں میں روشنی نہ رہی'۔

وہ کہ جنہیں دنیا چوکرز کہتی ہے، سب سے بدترین کارکردگی تو پاکستان کی انہی کے خلاف رہی۔ 2007ء میں اپنے ہی میدانوں پر پاکستان نے وہ شکست کھائی، جس کے زخم شاید آج بھی تازہ ہوں۔ لاہور میں ہونے والے اس میچ میں 243 رنز کے ہدف کے تعاقب میں پاکستان صرف تین وکٹوں کے نقصان پر 199 رنز تک پہنچ گیا تھا اور اسے باقی 58 گیندوں پر صرف 35 رنز کی ضرورت تھی اور چھ وکٹیں بھی موجود تھی لیکن پوری ٹیم 219 رنز پر آؤٹ ہوگئی اور یوں مقابلہ اور سیریز جنوبی افریقہ کی جھولی میں ڈال دی۔ معاملہ صرف یہیں نہیں رکا۔ جب 2010ء میں پاکستان نے جنوبی افریقہ ہی کے خلاف متحدہ عرب امارات میں 'ہوم سیریز' کھیلی تو انتہائی سنسنی خیز دو فتوحات کے باوجود پاکستان پانچویں و فیصلہ کن مقابلے میں 57 رنز سے شکست کھا کر سیریز سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

اس سے چند ماہ قبل ہی پاکستان دورۂ انگلستان میں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کی زد میں آیا تھا۔ ٹیسٹ سیریز میں بدترین ناکامی کے بعد ایک روزہ سیریز میں پاکستان کے کھلاڑیوں کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ وہ سیریز جیت کر ثابت کریں کہ تمام کھلاڑی سٹے باز اور بے ایمان نہیں ہیں۔ گرین شرٹس نے اس سیریز میں بہت جان لڑائی اور دو-صفر کے خسارے میں جانے کے باوجود تیسرا اور چوتھا ون ڈے جیت کر سیریز کا فیصلہ آخری مقابلے تک کے لیے ٹال دیا۔ لیکن ساؤتھمپٹن میں دباؤ نہ جھیل سکے اور انگلستان باآسانی 121 رنز سے جیت کر سیریز لے اڑا۔

2012ء میں آسٹریلیا کے خلاف سیریز پر گرفت مضبوط ہوجانے کے باوجود پاکستان حتمی مقابلے میں گلین میکس ویل پر قابو نہ پا سکا اور ایک مرتبہ پھر شکست سے دوچار ہوا (تصویر: AP)
2012ء میں آسٹریلیا کے خلاف سیریز پر گرفت مضبوط ہوجانے کے باوجود پاکستان حتمی مقابلے میں گلین میکس ویل پر قابو نہ پا سکا اور ایک مرتبہ پھر شکست سے دوچار ہوا (تصویر: AP)

یہی نہیں بلکہ پاکستان 2009ء میں متحدہ عرب امارات ہی میں نیوزی لینڈ جیسے حریف کے خلاف بھی آخری و فیصلہ کن مقابلہ ہار چکا ہے۔ تین ون ڈےمیچز کی اس سیریز میں پاکستان کو پہلے مقابلے میں 138 رنز سے کامیابی ملی لیکن دوسرے میچ میں اسے 64 رنز کی شکست کا سامنا ہوا۔ تیسرے و فیصلہ کن مقابلے میں پاکستان 212 رنز کے ہدف کے تعاقب میں صرف صرف 101 رنز پر اپنی 9 وکٹوں سے محروم ہوچکا تھا اور میچ و سیریز میں شکست کے دہانے پر تھا کہ سعید اجمل اور محمد عامر کی دسویں وکٹ پر 103 رنز کی شراکت داری نے اسے ناقابل یقین انداز میں ہدف کے بہت قریب پہنچا دیا لیکن آخری اوور کی پہلی گیند ہی سعید اجمل کی روانگی کا پروانہ ثابت ہوئی اور یوں "ایک مرتبہ پھر" میچ کے ساتھ سیریز بھی ہاتھ سے نکل گئی۔ عامر کی 81 گیندوں پر 73 رنز کی ناقابل شکست اننگز رائیگاں گئی۔

ابھی حال ہی میں، 2012ء میں، پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف متحدہ عرب امارات میں تین ایک روزہ مقابلوں کی سیریز کھیلی اور فیصلہ کن میچ میں 245 رنز کے تعاقب میں موجود آسٹریلیا کے 5 کھلاڑیوں کو 159 رنز پر ٹھکانے لگانے کے باوجود پاکستان گلین میکس ویل پر قابو نہ پا سکا جن کے 38 گیندوں پر 56 رنز سے سیریز کا فیصلہ کردیا۔

اب پاکستان کو 'ایک اور دریا کا سامنا' ہے۔ ایک اور سیریز اور ایک اور فیصلہ کن مقابلے کا کہ ایک طرف جہاں اپنی بھرپور فارم میں موجود سری لنکا ہے، اور دوسری جانب جدوجہد کرتے پاکستان کے کھلاڑی، جو بجائے ملک کے ٹیم میں اپنی جگہ بچانے کے لیے کھیلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے پاکستان اس وقت ایک روزہ کرکٹ کی عالمی درجہ بندی میں چھٹے نمبر پر ہے۔ لیکن پاکستان نے ماضی قریب میں بھارت اور جنوبی افریقہ کے خلاف انہی کے ملکوں میں جا کر ون ڈے سیریز جیتی ہیں، گو کہ وہ فیصلہ کن مقابلے تک نہیں گئیں لیکن اس کے باوجود موجودہ کھلاڑی ان دونوں فتوحات سے تحریک پا کر دمبولا میں تاریخ کا دھارا پلٹ سکتے ہیں۔ بس 'پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ!'