فیلڈنگ لاہور کو لے ڈوبی، کولکتہ کے ہاتھوں شکست
جیت خامیوں کو چھپا دیتی ہے اور شکست انہیں اچھی طرح نمایاں کرکے دکھاتی ہے۔ بھارت میں جاری چیمپئنز لیگ ٹی ٹوئنٹی کے کوالیفائنگ راؤنڈ میں لاہور لائنز نے ممبئی انڈینز اور سدرن ایکسپریس کے خلاف فتوحات سمیٹیں اور مرکزی مرحلے تک رسائی حاصل کرلی لیکن اس کے باوجود محسوس ہو رہا تھا کہ اس فیلڈنگ کے ساتھ اگلے مرحلے کے مقابلے جیتنا محال ہوگا۔ پھر مین راؤنڈ کے پہلے ہی مقابلے میں یہ بات ثابت بھی ہوگئی جہاں بدترین فیلڈنگ نے لاہور لائنز کو کولکتہ نائٹ رائیڈرز کے ہاتھوں شکست سے دوچار کیا۔
حیدرآباد کے راجیو گاندھی انٹرنیشنل اسٹیڈیم میں کھیلے گئے سی ایل ٹی 20 کے اہم مقابلے میں کولکتہ نے ٹاس جیت کر لاہور لائنز کو بیٹنگ کی دعوت دی۔ جس کے بعد پاور پلے میں لاہوری اوپنرز احمد شہزاد اور ناصر جمشید کی نصف سنچری شراکت داری قائم ہوئی۔ مڈ وکٹ پر کھڑے کولکتہ کے آندرے رسل کی براہ راست تھرو نے ناصر جمشید کی ایک اور اننگز کا خاتمہ رن آؤٹ پر کیا لیکن اس وقت تک لاہور ساڑھے 6 اوورز میں 50 رنز جمع کرچکا تھا۔ اس بنیاد پر ایک بڑے مجموعے کی راہ ہموار ہوسکتی تھی لیکن کولکتہ کے اسپنرز مقابلے پر ایسے حاوی ہوئے کہ آخری لمحات کی کچھ مارا ماری کے علاوہ لاہور کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ کپتان محمد حفیظ نوجوان اسپنر کلدیپ یادیو کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے اور اس کے بعد مسلسل چار وکٹیں گریں۔ پہلے احمد شہزاد 42 گیندوں پر 59 رنز کی اننگز کے ساتھ میدان سے لوٹے اور کچھ ہی دیر میں سعد نسیم، عمر صدیق اور آصف رضا سنیل نرائن کے ہتھے چڑھ گئے۔ 16 ویں اوور میں صرف 103 رنز پر 6 وکٹوں کے نقصان کے ساتھ لاہور کی اننگز لڑکھڑاتی دکھائی دے رہی تھی۔
اس مرحلے پر عمر اکمل کے 24 گیندوں پر 40 اور وہاب ریاض کے 14 رنز نے مجموعے کو 151 رنز تک پہنچایا جو وکٹ کو دیکھتے ہوئے مناسب اسکور کہا جا سکتا تھا۔ لیکن لاہور کو اس مقام تک پہنچانے میں کولکتہ نائٹ رائیڈرز کے فیلڈرز کی ناقص کارکردگی کا بھی کردار تھا جنہوں نے کیچ اور اسٹمپنگ کے متعدد مواقع ضائع کیے اور لاہور کو 150 رنز کا سنگ میل عبور کرنے کا موقع دیا۔
البتہ اس فیلڈنگ کے باوجود کولکتہ کے ایک کھلاڑی کی کارکردگی شاندار رہی، سنیل نرائن! کہ جنہوں نے ثابت کیا کہ آخر کیوں انہیں دنیا کا بہترین ٹی ٹوئنٹی اسپنر سمجھا جاتا ہے۔ نرائن نے 4 اوورز پھینکے، جن میں سے ایک میڈن اوور تھا اور باقی تین اوورز میں انہوں نے صرف 9 رنز دے کر تین وکٹیں حاصل کیں۔ اس کارکردگی کی بنیاد پر انہیں آخر میں میچ کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ بھی ملا۔ لیکن ان کے علاوہ کولکتہ کے دیگر باؤلرز مہنگے ثابت ہوئے۔ پیٹ کمنز اور آندرے رسل نے اپنے مقررہ اوورز میں 38، 38 رنز دیے ۔ کمنز کے علاوہ ایک وکٹ پیوش چاؤلہ کو بھی ملی، جنہوں نے چار اوورز میں 35 رنز کھائے۔ ایک کھلاڑی کو یادیو نے آؤٹ کیا۔
152 رنز کے ہدف کے تعاقب میں کولکتہ کو رابن اوتھپا اور گوتم گمبھیر کی شراکت داری اور لاہور کے کھلاڑیوں کی فیاضی نے بہترین آغاز فراہم کیا۔ لاہور کے فیلڈرز نسبتاً کمزور حریفوں کے خلاف تو ایسی فیلڈنگ کے باوجود بچ گئے لیکن کولکتہ جیسے مقابل کے سامنے ایک چھوٹی سی غلطی بھی شکست کی صورت میں نکل سکتی تھی اور آخر میں ایسا ہی ہوا۔ گو کہ کولکتہ بغیر کسی وکٹ کے نقصان کے 100 رنز تک پہنچ گیا تھا لیکن اس مقام پر لاہور نے مقابلہ گرفت میں لینے کی آخری کوشش کی اور 47 رنز کے اضافے پر 6 وکٹیں حاصل کرلیں۔ لیکن یہ سب بے سود تھا کیونکہ کولکتہ ہدف کے بہت قریب پہنچ چکا تھا۔ رابن اوتھپا 46 اور گوتم گمبھیر 47 گیندوں پر 60 رنز کے ساتھ سب سے نمایاں بیٹسمین رہے۔ اعزاز چیمہ نے دو مسلسل اوورز میں منوندر بسلا اور یوسف اور پھر آخری لمحات میں وہاب ریاض نے راین ٹین ڈسکاٹے اور آصف رضا نے آندرے رسل کو آؤٹ کرکے مقابلے کو دلچسپ ضرور بنایا لیکن اس مقام سے کولکتہ کو روکنا ممکن نہیں تھا۔ جس نے آخری اوور کی تیسری گیند پر ہدف کو جا لیا۔
اعزاز چیمہ نے دو وکٹیں ضرور حاصل لیکن ان کے 4 اوورز میں 42 رنز پڑے۔ ایک، ایک کھلاڑی کو آصف رضا، وہاب ریاض، عدنان رسول اور مصطفیٰ اقبال نے آؤٹ کیا۔
یہ کولکتہ نائٹ رائیڈرز کی مسلسل گیارہویں فتح ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ ٹیم اس وقت فتوحات کی راہ پر پوری رفتار کے ساتھ دوڑ رہی ہے اور اعزاز کے لیے سب سے بڑی امیدوار بھی ہے۔
میچ کے اختتام پر محمد حفیظ نے کہا کہ ہم بغیر فیلڈنگ کوچ کے اس ٹورنامنٹ میں حصہ لے رہے ہیں، اسی لیے فیلڈنگ بہت کمزور دکھائی دے رہی ہے۔ البتہ انہوں نے بیٹنگ اور باؤلنگ پر اطمینان کا اظہار کیا اور آئندہ میچز میں بہتر نتائج کے یقین کا اظہار کیا۔
کولکتہ اپنا اگلا مقابلہ 24 ستمبر کو حیدرآباد ہی میں پرتھ اسکارچرز کے خلاف کھیلے گا جبکہ لاہور لائنز 25 ستمبر کو بنگلور میں چنئی سپر کنگز کے مدمقابل ہوں گے۔