تیز ترین سنچری، شاہد آفریدی کے لیے سنہری موقع

2 1,033

جب یکم جنوری 2014ء کی صبح شاہد آفریدی کو نیند سے اٹھا کر بتایا گیا کہ ان کا پسندیدہ تیز ترین ایک روزہ سنچری کا ریکارڈ اب ٹوٹ گیا ہے تو آپ کے خیال میں اُن کے ذہن میں پہلی بات کیا آئی ہوگی؟ شاید یہی کہ وہ اس ریکارڈ کو دوبارہ حاصل کریں گے۔ اس کے بعد سے اب تک متعدد بار شاہد آفریدی نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ تیز ترین ایک روزہ سنچری کے ریکارڈ کو حاصل کرنے کی وہ پوری کوشش کریں گے اور ہفتے کو ویسٹ انڈیز کے خلاف عالمی کا مقابلہ انہیں اس کا بہترین موقع فراہم کرے گا۔

شاہد آفریدی اپنے ریکارڈ کو واپس لینے کی کوشش کریں، ان کے پرستار بھی یہی چاہتے ہیں اور پاکستان کو ایسی کرشماتی اننگز کی سخت ضرورت بھی ہے (تصویر: AFP)
شاہد آفریدی اپنے ریکارڈ کو واپس لینے کی کوشش کریں، ان کے پرستار بھی یہی چاہتے ہیں اور پاکستان کو ایسی کرشماتی اننگز کی سخت ضرورت بھی ہے (تصویر: AFP)

پاک-ویسٹ انڈیز مقابلے کے میزبان شہر کرائسٹ چرچ کا اصل میدان لنکاسٹر پارک تھا جو 2011ء کے زلزلے میں تباہ ہوگیا، اس میدان پر 1973ء میں پہلا مقابلہ بھی پاکستان نے کھیلا اور جنوری 2011ء میں آخری بھی۔ اب عالمی کپ 2015ء میں جب یہی شہر پاکستان کی میزبانی کررہا ہے تو مقابلہ لنکاسٹر کے بجائے صرف چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیگلےاوول میں ہوگا۔ مختصر باؤنڈریز کی وجہ سے بلے باز کی حیثیت سے شاہد آفریدی کے خوابوں کا میدان ہے، لیکن شاید اسپن باؤلنگ کرتے ہوئے انہیں یہ پسند نہ آئے۔

شاہد آفریدی نے اکتوبر 1996ء میں عالمی چیمپئن سری لنکا کے خلاف صرف 37 گیندوں پر سنچری بنا کر عالمی ریکارڈ بنایا تھا جو تقریباً 18 سال قائم رہنے کے بعد جنوری 2014ء میں نیوزی لینڈ کے آل راؤنڈر کوری اینڈرسن نے توڑا، ابھی شاہد اس ریکارڈ کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کر ہی نہیں پائے تھے کہ پچھلے مہینے یعنی جنوری 2015ء میں جنوبی افریقہ کے ابراہم ڈی ولیئرز نے صرف 31 گیندوں کا سہارا لے کر سنچری بنا ڈالی یعنی اب جو بھی اس ریکارڈ تک پہنچنا چاہے گا اسے صرف 30 گیندیں ملیں گی تو کیا 36 سالہ شاہد آفریدی ایسا کرسکتے ہیں؟ اگر جاوید میانداد کا مشورہ مان لیا جائے تو جواب ہوگا بالکل!

بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعد ماضی کے عظیم بیٹسمین میانداد کا کہنا تھا کہ "وہ 300 رنز بنانے کے لیے شاہد آفریدی کو اوپنر کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے تھے لیکن ٹیم انتظامیہ نے حالات کا صحیح ادراک نہیں کیا۔" اگر اس مشورے کو مان لیا جائے تو چاہے پاکستان اگلے مقابلے میں آغاز ہی پر ویسٹ انڈیز کے حوصلے توڑنا چاہتا ہو، یا ہدف کے تعاقب کا آغاز تیزی سے کرنے کا خواہشمند ہو، دونوں صورتوں میں اسے شاہد آفریدی کو اوپر کی حیثیت سے آزمانا چاہیے۔ اس میدان پر اب تک صرف 4 ایک روزہ مقابلے کھیلے گئے ہیں اور آخری مقابلے میں 331 رنز تک بنے ہیں اس لیے اگر شاہد آفریدی کو اس صورتحال میں بھیجا جائے کہ جہاں خاصے اوورز باقی ہوں اور وہ چھوٹے میدان کا بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ نئی تاریخ رقم کردیں۔

ویسے ویسٹ انڈیز وہی حریف ہے جس کے خلاف شاہد آفریدی گزشتہ سیریز میں ناقابل یقین کارکردگی دکھا چکے ہیں۔ شاہد خان نے ویسٹ انڈیز کے خلاف آخری سیریز جولائی 2013ء میں کھیلی تھی جہاں گیانا کے پروویڈنس اسٹیڈیم میں انہوں نے اپنی بہترین آل راؤنڈ کارکردگی دکھائی۔ جب پاکستان صرف 47 رنز پر پانچ وکٹوں سے محروم ہوچکا تھا تو شاہد نے 55 گیندوں پر 76 رنز کی نمایاں اننگز کھیلی اور بعد ازاں صرف 12 رنز دے کر 7 وکٹیں حاصل کرکے پاکستان کو جیت سے ہمکنار کیا۔ شاید ہی ون ڈے کرکٹ میں کسی کھلاڑی نے ایک ہی مقابلے میں اتنی جامع کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہو۔

عالمی کپ میں پہلے مقابلے میں ہارنے کے بعد اب پاکستان کو کرشمہ دکھانے کی ضرورت ہے اور شاہد آفریدی سے سے بڑا کرشماتی کردار پاکستان کرکٹ میں کوئی نہیں۔ تو کیا ہم شاہد آفریدی سے امید رکھیں کہ وہ کرائسٹ چرچ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ایسی ہی جادوئی کارکردگی دکھائیں گے؟