[اعدادوشمار] پاکستان اور داستان رنز کے دفاع کی

سری لنکا کے خلاف پہلے ٹی ٹوئنٹی مقابلے میں پاکستان کا باآسانی کامیابی حاصل کرنا، بالکل بھی حیران کن نہیں تھا۔ خاص طور پر اس وقت جب پاکستان نے پہلے بلے بازی کرتے ہوئے 175 رنز کا بھاری مجموعہ اکٹھا کرلیا تھا۔ شاذونادر ہی ایسا ہوا ہے کہ پاکستان نے کسی ٹی ٹوئنٹی مقابلے میں پہلے بلے بازی کرتے ہوئے 150 رنز سے زیادہ اکٹھے کیے ہوں اور اس کے باوجود شکست کھائی ہو۔ بلکہ اگر اعدادوشمار کے مطابق بات کی جائے تو 24 مقابلوں میں صرف ایک بار ایسا ہوا ہے کہ پاکستان 150 سے زیادہ رنز کا دفاع نہ کر پایا ہو۔
یہ حقیقت پاکستان کی عمدہ باؤلنگ کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ آج کی انتہائی تیز کرکٹ میں، جہاں 20 اوورز میں 150 رنز کوئی بہت بڑا ہدف نہیں سمجھے جاتے، پاکستان کو8 سالوں میں صرف ایک بار کسی ٹیم کو یہاں تک پہنچنے دیا ہے۔ لیکن بدقسمتی دیکھیں کہ یہی بہت بڑا مقابلہ تھا۔ جی ہاں! پاکستان کو 150 سے زیادہ رنز کا دفاع کرتے ہوئے واحد شکست ایک بہت ہی اہم مقابلے میں ہوئی تھی۔ چند اشاروں سے آپ بھی سمجھ جائیں گے۔ سعید اجمل بمقابلہ مائیکل ہسی اور آخری اوور، یاد آ گیا ناں؟ جی ہاں، ہم ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2010ء کے سیمی فائنل کی بات کررہے ہیں۔
14 مئی 2010ء کو سینٹ لوشیا میں ہونے والے اس سیمی فائنل میں پاکستان کی کامیابی 19 اوورز تک یقینی تھی۔ ایک تو پاکستان نے پہلے بلے بازی کرتے ہوئے 191 رنز کا بہت بڑا مجموعہ کھڑا کر ڈالا تھا اور پھر 17 اوورز میں آسٹریلیا کے 144 رنز پر 7 کھلاڑیوں کو آؤٹ بھی کردیا تھا۔ لیکن صرف مائیکل ہسی نے بازی پلٹ کر دکھا دی۔ ان کے محض 24 گیندوں پر بنائے گئے 60 رنز نے آسٹریلیا کو آخری اوور کی پانچویں گیند پر جتوا دیا اور پہلی بار ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے فائنل تک پہنچا دیا۔ وہ الگ بات کہ وہ وہاں کامیابی حاصل نہ کرسکا لیکن کم از کم پاکستان کو تو اعزاز کی دوڑ سے باہر کردیا۔ آخری اوور میں آسٹریلیا کو جیتنے کے لیے 18 رنز کی ضرورت تھی اور گیند 'جادوگر اسپنر' سعید جمل کے ہاتھ میں تھی۔ مچل جانسن نے پہلی گیند پر رن دوڑا اور ذمہ داری مائیکل ہسی کے کاندھوں پر آ گئی۔ انہوں نے مسلسل دو چھکے اور ایک چوکا لگانے کے بعد پانچویں گیند پر ایک اور چھکا رسید کرتے ہوئے آسٹریلیا کو مقابلہ جتوا دیا۔ سعید اجمل، بلکہ پاکستان کے تمام شائقین، سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ یہ آخر ہوا کیا؟ ہسی تن تنہا آسٹریلیا کو مقابلہ جتوا گئے۔
بہرحال، سانپ گزر چکا، اب لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس مقابلے سے پہلے، اور نہ ہی اس کے بعد، پاکستان 150 سے زیادہ رنز کے دفاع میں کبھی ناکام نہیں ہوا۔ ستمبر 2012ء میں آسٹریلیا کے خلاف دبئی میں ہونے والا ایک سنسنی خیز مقابلہ بھی پاکستان کی ایسی ہی یادگار فتوحات میں سے ایک ہے۔ پاکستان نے پہلے بلے بازی کرتے ہوئے 4 وکٹوں پر 151 رنز بنائے اور جب آسٹریلیا کو آخری 5 اوورز میں محض 43 رنز کی ضرورت تھی تو عمر گل نے مائیکل ہسی کو آؤٹ کرکے آسٹریلیا کی پیشرفت کو کاری ضرب لگائی۔ اس کے باوجود جارج بیلی کی عمدہ بلے بازی اور آخری اوور میں عبد الرزاق کی ناقابل یقین باؤلنگ نے میچ کو سنسنی خیزی کی آخری حدوں تک پہنچا دیا۔ پانچویں گیند پر پیٹرک کمنز کے چھکے کے ساتھ ہی مقابلہ برابر ہوگیا لیکن آخری گیند پر، جب آسٹریلیا کو جیتنے کے لیے محض ایک رن کی ضرورت تھی، کمنز آؤٹ ہوگئے اور یوں مقابلہ برابر ہوگیا اور فیصلہ سپر اوورز میں ہوا۔
سپر اوور میں آسٹریلیا نے پہلے بلے بازی کی اور عمر گل نے سوائے ایک چوکا کھانے کے کوئی اور غلطی نہ کی۔ پاکستان کو جیتنے کے لیے 12 رنز کا ہدف ملا اور عمر اکمل اور عبد الرزاق اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے میدان میں اترے۔ دوسری گیند پر عمر اکمل اور چوتھی پر عبد الرزاق کے چوکے نے معاملہ آسان کردیا لیکن پانچویں گیند پر صرف ایک رن بننے کے بعد صورتحال یہ ہوگئی کہ پاکستان کو آخری گیند پر دو رنز کی ضرورت تھی۔ کمنز سے یہاں پھر غلطی ہوئی، جو اس بار باؤلنگ کررہے تھے، انہوں نے وائیڈ پھینک دی اور مقابلہ برابر ہوگیا۔ آخری گیند پر عمر اکمل رن آؤٹ سے بچتے ہوئے فاتحانہ رن دوڑنے میں کامیاب ہوگئے اور فتح کا ایک زبردست جشن منایا۔ پاکستان نے اس فتح کے ساتھ سیریز بھی دو-صفر سے جیت لی۔
اس بات کو دنیا کی تمام ٹیموں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر پاکستان کسی ٹی ٹوئنٹی میں پہلے بلے بازی کرتے ہوئے 150 سے زیادہ رنز بنا لے، تو اس کے دو ہی مطلب نکلتے ہیں، 95 فیصد تو امکان پاکستان کے جیتنے کے ہے، لیکن بقیہ پانچ فیصد پر بھی یہ یقین ہے کہ میچ انتہائی سنسنی خیز ہوگا جیسا کہ مذکورہ دونوں مقابلے رہے۔
امید ہے کہ پاکستان سری لنکا کے خلاف دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں بھی کامیابی حاصل کرکے عالمی درجہ بندی میں تیسرا مقام حاصل کرلے گا۔ دیکھتے ہیں، یکم اگست کو کولمبو میں پاکستان کیا کارنامہ دکھاتا ہے۔
رنز | نتیجہ | فتح/شکست کا مارجن | بمقابلہ | بمقام | بتاریخ | |
---|---|---|---|---|---|---|
![]() |
191 | فتح | 30 رنز | ![]() |
نیروبی | 2 ستمبر 2007ء |
![]() |
171 | فتح | 51 رنز | ![]() |
ڈربن | 12 ستمبر 2007ء |
![]() |
189 | فتح | 33 رنز | ![]() |
جوہانسبرگ | 17 ستمبر 2007ء |
![]() |
203 | فتح | 102 رنز | ![]() |
کراچی | 20 اپریل 2008ء |
![]() |
175 | فتح | 82 رنز | ![]() |
لارڈز | 9 جون 2009ء |
![]() |
159 | فتح | 39 رنز | ![]() |
اوول | 15 جون 2009ء |
![]() |
172 | فتح | 52 رنز | ![]() |
کولمبو | 12 اگست 2009ء |
![]() |
161 | فتح | 49 رنز | ![]() |
دبئی | 12 نومبر 2009ء |
![]() |
153 | فتح | 7 رنز | ![]() |
دبئی | 13 نومبر 2009ء |
![]() |
172 | فتح | 21 رنز | ![]() |
گروس آئی لیٹ | یکم مئی 2010ء |
![]() |
191 | شکست | 3 وکٹ | ![]() |
گروس آئی لیٹ | 14 مئی 2010ء |
![]() |
167 | فتح | 23 رنز | ![]() |
برمنگھم | 5 جولائی 2010ء |
![]() |
162 | فتح | 11 رنز | ![]() |
برمنگھم | 6 جولائی 2010ء |
![]() |
183 | فتح | 103 رنز | ![]() |
کرائسٹ چرچ | 30 دسمبر 2010ء |
![]() |
198 | فتح | 85 رنز | ![]() |
ہرارے | 16 ستمبر 2011ء |
![]() |
151 | برابر | - | ![]() |
دبئی | 7 ستمبر 2012ء |
![]() |
177 | فتح | 13 رنز | ![]() |
پالی کیلے | 23 ستمبر 2012ء |
![]() |
195 | فتح | 95 رنز | ![]() |
سنچورین | 3 مارچ 2013ء |
![]() |
161 | فتح | 25 رنز | ![]() |
ہرارے | 23 اگست 2013ء |
![]() |
179 | فتح | 19 رنز | ![]() |
ہرارے | 24 اگست 2013ء |
![]() |
176 | فتح | 6 رنز | ![]() |
کیپ ٹاؤن | 22 نومبر 2013ء |
![]() |
191 | فتح | 16 رنز | ![]() |
ڈھاکہ | 23 مارچ 2014ء |
![]() |
190 | فتح | 50 رنز | ![]() |
ڈھاکہ | 30 مارچ 2014ء |
![]() |
175 | فتح | 29 رنز | ![]() |
کولمبو | 30 جولائی 2015ء |