ویسٹ انڈیز کی کامیابی، پاکستان کے لیے سبق
کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام دینے کے بعد خوشی سے آنکھیں بھر آنا عام بات ہے، لیکن خوشی کے لمحات میں دکھ اور افسوس سے آبدیدہ ہو جانا غیر معمولی ہے۔ دوسری بار ٹی ٹوئنٹی کا عالمی چیمپئن بننے کے بعد ڈیرن سیمی کی فاتحانہ تقریر کے دوران یہ آنسو دنیا نے دیکھے۔
آخری اوور میں لگاتار چار چھکے لگانے کے بعد ویسٹ انڈیز عالمی چیمپئن بن گیا۔ ہر طرف جشن کا سماں تھا، ڈیوین براوو کی آواز میں "چمیپئن، چیمپئن" کی گونج تھی اور اس دوران ڈیرن سیمی فاتحانہ تقریر کے لیے آئے تو محسوس ہوا کہ وہ "میرا مجلسی تبسم میرا ترجماں نہیں ہے" کی عملی تصویر ہیں۔ ابھی چند لمحوں قبل رقص کرنے والے سیمی اپنے کرکٹ بورڈ کے رویے پر کتنے پریشان اور دل گرفتہ ہیں، ان کی زبان سے نکلا ہوا ایک، ایک لفظ اس کا عکاس تھا۔ سیمی کا شکوہ ہے ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر سے ٹیلی فون کالز، ای میلز اور سوشل میڈیا پیغامات کے ذریعے ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کی حوصلہ افزائی ہوئی، خود ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ کواتنی بھی زحمت نہیں ہوئی کہ بہترین کھیل کا مظاہرہ کرنے والی ٹیم کے لیے حوصلے کے چند بول ہی بول دیتا۔
ڈیرن سیمی نے گفتگو کے دوران ہی انکشاف کیا کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے ٹیم کے پاس نئی وردی تک نہیں تھی اور یہ نئے مینیجر رال لوئس کی مہربانی تھی کہ وہ ہنگامی طور پر دبئی سے کلکتہ آئے اور یہ اہم کام سرانجام دیا۔ سیمی نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ ان کھلاڑیوں کے ساتھ مجھے دوبارہ کھیلنے کا موقع بھی ملے گا یا نہیں۔
ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں اور بورڈز کے درمیان تنازع کوئی نئی بات نہیں۔ یہ بہت لمبی داستان ہے لیکن ابھی حال ہی میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے کھلاڑیوں کے انتخاب کے مرحلے پر بھی معاملات اتنے خراب تھے کہ ایسا لگ رہا تھا کہ ویسٹ انڈیز یہ ٹورنامنٹ نہیں کھیلے گا۔ لیکن کھلاڑیوں نے اپنے ذاتی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ویسٹ انڈیز کے لیے کھیلنے کو ترجیح اور میدان عمل میں اپنی کارکردگی کے ذریعے بورڈ سمیت تمام ناقدین کو بھی منہ توڑ جواب دیا۔
اصل تنازع مالی معاملات کا ہے۔ عالمی کپ کے لیے بھی بورڈ کو جو رقم بین الاقوامی کرکٹ کونسل سے ملی، اس میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کی گئی۔ کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ بورڈ کو 8 ملین ڈالرز ملے تھے جس میں سے 25 فیصد کھلاڑیوں کو جنا چاہیے لیکن بورڈ کا کہنا ہے کہ اسے اتنی رقم نہیں ملی اور وہ تمام کھلاڑیوں کو مشترکہ طور پر 4 لاکھ 14 ہزار ڈالرز دے رہا ہے حالانکہ کھلاڑیوں کے حساب کے مطابق فی کھلاڑی ایک لاکھ 33 ہزار ڈالرز ملنے چاہئیں۔ اتنی بڑی کٹوتی نے پہلے سے پیچیدہ تعلقات کو مزید خراب کردیا ہے۔ کھلاڑیوں کو یہ بھی شکوہ ہے کہ تنخواہوں کے معاملات الگ خراب ہے اور ساتھ ہی انہیں بے یار و مددگار بھی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں کھلاڑیوں پر پابندیاں لگی ہیں لیکن بورڈ نے قانونی مدد تو کجا اخلاقی سہارا تک نہیں دیا۔
ڈیرن سیمی کی یہ گفتگو جہاں ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ کے لیے لمحہ فکریہ ہے وہیں پاکستان کے لیے بھی سیکھنے کا مقام ہے کہ جہاں ہر کوئی اپنی ناکامیوں کو دوسرے کے کھاتے میں ڈال کر دامن جھاڑ رہا ہے۔ سیمی نے سکھایا کہ حالات کتنے ہی سنگین کیوں نہ ہوں، اگر وطن کی عزت عزیز ہے اور جھنڈے کو بلند رکھنے کا عزم موجود ہے تو غیر معمولی کارکردگی پیش کرکے ان سب کو شرمندہ کیا جا سکتا ہے، جو آپ کے راستے میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔