اظہر علی کو قیادت سے ہٹایا جائے، سابق کپتان یک آواز

0 1,029

پاکستان کرکٹ بورڈ کے سطحی فیصلوں کا خمیازہ ہمیشہ عوام کے پسندیدہ کھیل کو ہی بھگتنا پڑا ہے۔ بارہا سبکی کے باوجود بورڈ اپنا چلن بدلنے کو تیار نہیں ہے۔ عالمی کپ 2015ء میں ناکامی کے بعد جب کپتان مصباح الحق ایک روزہ کرکٹ چھوڑ گئے تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جدید دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک روزہ دستے کی قیادت کسی پرجوش اور جارح مزاج نوجوان کے حوالے کی جاتی، لیکن بورڈ کے فیصلے نے سب کو حیران کردیا۔ اظہر علی کو کپتان بنایا گیا جو دو، ڈھائی سالوں سے ایک روزہ ٹیم کا حصہ تک نہیں تھے۔

جب 31 سالہ اظہر علی کو قیادت ملی تو ایک طرف یہ سوال اٹھتا رہا کہ آیا اظہر کی ٹیم میں جگہ بھی بنتی ہے یا نہیں، تو دوسری طرف مسلسل شکستوں کا سلسلہ جاری رہا۔ یہاں تک کہ عالمی درجہ بندی میں اب پاکستان محض زمبابوے اور افغانستان سے آگے رہ گیا ہے۔ ہر گزرتے مقابلے کے ساتھ اک نئے زوال کو چھونے میں جو کسر باقی رہ گئی تھی وہ انگلستان کے خلاف تیسرے ایک روزہ میں پوری ہوگئی۔ 169 رنز کی عبرت ناک شکست کہ جس کے ساتھ ہی پاکستان نہ صرف سیریز سے ہاتھ دھو بیٹھا بلکہ قائدانہ صلاحیت بھی بے نقاب ہوگئی۔ کرکٹ کے حلقے، عوام اور ذرائع ابلاغ سب اظہر علی پر تنقید کر رہے ہیں۔

سابق کپتان اور عظیم بلے باز جاوید میانداد کہتے ہیں کہ یہی وقت ہے کہ اظہر علی کو کپتان بنانے کے غلط فیصلے کو درست کیا جائے اور ویسٹ انڈیز کے خلاف آئندہ سیریز کے لیے کسی موزوں فرد کا انتخاب ہو۔ "ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ایک روزہ کرکٹ اب بہت بدل چکی ہے، اس لیے بہترین انتخاب سرفراز احمد ہی ہیں۔"

ایک اور سابق کپتان وسیم اکرم کا جھکاؤ بھی سرفراز احمد ہی کی طرف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک روزہ کرکٹ کے متعلق نقطہ نظر کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے اور اس کے لیے کپتان کی تبدیلی ناگزیر ہے۔ سرفراز کو کپتانی سونپنے کا درست وقت یہی ہے کیونکہ نہ صرف ان کی اپنی کارکردگی اچھی ہے بلکہ وہ ٹیم کو دباؤ سے نکالنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

یاد رہے کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016ء میں ناقص کارکردگی کے بعد شاہد آفریدی کی جگہ سرفراز احمد کو ہی کپتان بنایا گیا تھا اور اب سابق کھلاڑیوں کا ایک بڑا حلقہ انہیں ون ڈے کپتان دیکھنے کا بھی آرزو مند ہے۔

معروف کمنٹیٹر، اور سابق کپتان، رمیز راجہ بھی اظہر علی کو ایک روزہ قیادت کے لیے موزوں نہیں سمجھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب اظہر علی کو قیادت دی گئی تھی، تب سے دباؤ کی وجہ سے ان کی اپنی کارکردگی متاثر ہوئی ہے اور مجھے تشویش ہے کہ یہ دباؤ ٹیسٹ کارکردگی پر بھی اثر انداز نہ ہو جائے جہاں اظہر دستے کا اہم ترین حصہ ہیں۔

سابق اوپنر اور پاکستان کے کوچ رہنے والے محسن خان کہتے ہیں کہ تیسرے ایک روزہ میں پاکستان کی کارکردگی مایوس کن تھی۔ اس فارمیٹ میں ہم مسلسل تنزلی کی جانب جا رہے ہیں۔ یہ کوچ مکی آرتھر کا امتحان ہے کہ وہ محدود اوورز کی ٹیم کو ٹیسٹ کے برابر لا کھڑا کریں کیونکہ اس وقت دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

انگلستان کے خلاف سیریز میں شکست کے ساتھ پاکستان کی حالت مزید نازک ہوگئی ہے جو پہلے ہی عالمی درجہ بندی میں نویں نمبر پر ہے۔ اس مشکل صورت حال میں بورڈ ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز سے قبل عہدیداران کا ایک اہم اجلاس منعقد کرنے والا ہے جس میں اظہر علی کی قیادت کے حوالے سے اہم فیصلہ ہو سکتا ہے۔

azhar-ali