اسلام آباد ایک مرتبہ پھر چیمپیئن بن گیا

0 1,730

اسلام آباد یونائیٹڈ نے ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد پشاور زلمی کو 3 وکٹوں سے شکست دے ایک مرتبہ پھر پاکستان سپر لیگ کا ٹائٹل جیت لیا ہے۔ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ہونے والے ایک زبردست مقابلے میں اسلام آباد 149 رنز کے تعاقب میں تھا اور نویں اوور میں ہی بغیر کسی وکٹ کے نقصان کے 96 رنز بنا چکا تھا۔ تب "زلمی کا وار" شروع ہوا اور صرف 20 رنز کے اضافے پر اسلام آباد کی چھ وکٹیں گر گئیں۔ میچ ایک دلچسپ مرحلے میں داخل ہوچکا تھا کہ کامران اکمل نے آصف علی کا کیچ چھوڑ کر پشاور کے بڑھتے قدموں کو روک دیا اور یہی "ٹرننگ پوائنٹ" ثابت ہوا کیونکہ اگلے ہی اوور میں آصف علی نے حسن علی کو لگاتار تین چھکے جڑ دیے اور گویا میچ کا فیصلہ ہی کردیا۔ اسلام آباد نے کہ سترہویں اوور میں فہیم اشرف کے چھکے کی بدولت تین وکٹوں سے کامیابی حاصل کی اور یوں دوسری مرتبہ چیمپیئن بن گیا۔

اسلام آباد کو ہدف کے تعاقب میں آغاز بالکل ویسا ہی ملا، جیسا اس نے سوچا تھا۔ لیوک رونکی نے صرف 26 گیندوں پر 52 رنز کی طوفانی اننگز کھیلی جس میں پانچ چھکے اور چار چوکے بھی شامل تھے۔ دو چھکے تو انہوں نے اننگز کے پہلے ہی اوور میں لگائے تھے۔ ان کو دیکھ کر نوجوان اوپنر صاحبزادہ فرحان نے بھی خوب رنگ پکڑا۔ اسلام آباد صرف ایک وکٹ کے نقصان پر 100 رنز تک پہنچ چکا تھا، وہ بھی آدھے اوورز میں۔ ایسا لگتا تھا کہ مقابلہ یکطرفہ ہوگا لیکن پشاور نے یہاں جوابی کارروائی ڈالی۔ کرس جارڈن کے ہاتھوں رونکی کے آؤٹ ہونے کے کچھ ہی دیر بعد عمید آصف نے چیڈوِک والٹن کو صفر پر بولڈ کیا۔ گیند ان کے بلے کا اندرونی کنارہ لیتی ہوئی وکٹوں میں گھس گئی تھی۔ ابھی سانس ہی نہ لیا تھا کہ جارڈن نے کپتان جے پی دومنی کو اپنی ہی گیند پر کیچ کرلیا اور میچ کو دلچسپ مرحلے میں داخل کردیا۔

12 ویں اوور کا اختتام صاحبزادہ فرحان کی وکٹ کے ساتھ ہوا جو وہاب ریاض کو وکٹ دے گئے۔ حسن علی نے ایک ہی اوور میں سمیت پٹیل اور شاداب خان کو آؤٹ کیا تو صرف 20 رنز کے اضافے پر اسلام آباد کی چھ وکٹیں گرگئیں۔ کرس جارڈن کے شاندار کیچ نے زلمی اسکواڈ اور تماشائیوں میں بجلی سی بھردی۔ اسلام آباد 6 اوورز میں 33 رنز کی ضرورت تھی اور کریز پر دو نوجوان آصف علی اور حسین طلعت موجود تھے۔

تب میچ کا فیصلہ کن مرحلہ آیا، آصف علی نے عمید آصف کی ایک اٹھتی ہوئی گیند کو پل کرنے کی کوشش کی اور بری طرح ناکام ہوئے۔ گیند بلّے کا بالائی کنارہ لیتی ہوئی فائن لیگ کی طرف جانے لگی جہاں الٹا بھاگتے ہوئے کامران اکمل نے ایک آسان موقع ضائع کیا اور یہی وہ لمحہ تھا جب بازی پشاور کے ہاتھ سے نکل گئی۔ کیونکہ اگلے ہی اوور میں آصف نے حسن علی کو مسلسل تین چھکے لگا کر اسلام آباد کی کامیابی یقینی بنادی۔

پشاور کی طرف سے سب سے زیادہ مایوس کن دن حسن علی کے لیے تھا، جنہوں نے اسٹیڈیم میں آغاز تو خوب رقص کے ساتھ کیا تھا لیکن اختتام 4 اوورز میں 53 رنز کے ساتھ کیا۔ کچھ یہی کامران اکمل کے ساتھ ہوا کہ جن سے بڑی امیدیں تھیں لیکن بلے بازی میں وہ صرف 1 رن بنا پائے، ریویو بھی ضائع کیا جو بعد میں آندرے فلیچر کے کام آ سکتا تھا جو اچھا کھیل رہے تھے اور پھر سب سے بڑھ کر میچ کے نازک ترین مرحلے پر ایک آسان کیچ چھوڑ کر پشاور کی ناکامی پر مہر ثبت کی۔

قبل ازیں، "بگ فائنل" کے لیے پشاور نے اپنی ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی یعنی وہی ٹیم ایکشن میں نظر آ رہی ہے جس نے دوسرے ایلی منیٹر میں کراچی کنگز کو شکست دی تھی۔ دوسری جانب اسلام آباد یونائیٹڈ نے ایلکس ہیلز کی جگہ چیڈوِک والٹن کو جگہ دی ہے۔ اسلام آباد کو یہ تبدیلی مجبوراً کرنا پڑی کیونکہ ہیلز پاکستان نہیں آئے تھے، ورنہ شاید وہ بھی بغیر کسی تبدیلی کے میدان میں اترتے۔

زخمی مصباح الحق کی عدم موجودگی میں اسلام آباد کی قیادت جے پی دومنی نے کی کہ جن کا استقبال کراچی والوں نے خوب کیا۔ اختتامی تقریب کے دوران جب میزبان نے دومنی کو اسٹیج پر بلایا تو پورا اسٹیڈیم "جے پی! جے پی!" کے نعروں سے گونج رہا تھا، جس کا جواب انہوں نے بہترین لہجے میں "السلام علیکم" کہہ کر دیا۔ جبکہ سیمی نے "کراچی کیسے ہو؟" کہہ کر سب کے دل جیت لیے۔

بہرحال، ٹاس ہارنے کے بعد جے پی کا کہنا تھا کہ وہ ویسے بھی اس وکٹ پر پہلے باؤلنگ کرنا چاہ رہے تھے اس لیے ٹاس ہارنا اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔ جے پی نے پہلا اوور سمیت پٹیل کو دیا، جو سیزن میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے اسپنر تھے اور یہ چال جلد ہی کام کرگئی۔ سمیت نے ابتدائی اوورز میں ہی پشاور زلمی کو بڑا نقصان پہنچا دیا۔ پہلے انہوں نے پی ایس ایل کی "رنز مشین" کامران اکمل کو آؤٹ کیا اور اگلے اوور میں محمد حفیظ کی بھی وکٹ حاصل کرلی۔ کامران سمیت کی ایک گیند کو سویپ کرنے کی کوشش میں ایل بی ڈبلیو قرار پائے۔ امپائر کا ریویو بھی ان کا نہیں بچا سکا جبکہ محمد حفیظ ایک چھکا لگانے کے بعد اعتماد تو بحال کر چکے تھے لیکن سمیت کی گیند کو نہ سمجھ پائے اور انہی کو کیچ دے بیٹھے۔ پاور پلے کے آخری اوور میں شاداب خان کو گیند تھمائی گئی جنہوں نے آندرے فلیچر کو ایل بی ڈبلیو کیا۔ یوں پشاور زلمی ابتدائی چھ اوورز میں ہی تین وکٹوں سے محروم ہو گیا۔ اگر کامران اکمل ریویو ضائع نہ کر جاتے تو فلیچر بچ سکتے تھے کیونکہ ری پلے میں ثابت ہوا کہ گیند وکٹوں سے کہیں اوپر نکل جاتی۔

صرف 38 رنز پر تین کھلاڑی آؤٹ ہونے کے بعد اسلام آباد یونائیٹڈ کا کھیل عروج پر پہنچ گیا۔ یہاں پر پشاور زلمی نے کرس جارڈن کو اوپر بھیجا اور انہوں نے اس نازک موقع پر بہترین کھیل پیش کیا۔ ایک ایسے لمحے پر جب تیز کھیلنا خطرناک بھی ہو سکتا تھا، انہوں نے لیام ڈاسن کے ساتھ مل کر 39 گیندوں پر 52 رنز کی شراکت داری قائم کی۔ جارڈن تین چھکوں اور ایک چوکے کی مدد سے 36 رنز بنانے کے بعد حسین طلعت کو وکٹ دے گئے، جنہوں نے نہ صرف انہیں بلکہ آنے والے بلے باز سعد نسیم کو بھی اگلے اوور میں آؤٹ کیا۔ پندرہویں اوور کی پہلی گیند پر حسین طلعت نے خود ہی سعد نسیم کا کیچ لیا جو صرف ایک رن کا اضافہ کر پائے۔

سولہواں اوور شاداب خان کا آخری اوور تھا اور اس نے پشاوری اننگز کی سمت کا تعین بھی کرنا تھا۔ ڈیرن سیمی اور لیام ڈاسن کے ہوتے ہوئے اننگز کوئی بھی رُخ اختیار کر سکتی تھی لیکن شاداب نے ایک خطرے کا تو خاتمہ کیا ہی، ساتھ ہی آنے والے بیٹسمین کو بھی آؤٹ کرکے اسلام آباد کو ایک مرتبہ پھر غالب کردیا۔ اوور کی چوتھی گیند پر شاداب نے سیمی کو ایل بی ڈبلیو کیا، جو صرف 6 رنز بنا پائے اور اگلی ہی گیند پر آنے والے بیٹسمین عمید آصف کو بھی وکٹوں کے سامنے جا لیا۔ 16 اوورز مکمل ہوئے تو پشاور 112 رنز پر کھڑا تھا ۔ جہاں اسلام آباد کے باؤلرز میچ اپنی گرفت سے نکلنے نہیں دے رہے تھے۔ محمد سمیع نے لیام ڈاسن کی صورت میں اپنی پہلی اور بہت قیمتی وکٹ حاصل کی بلکہ اگلے اوور میں فہیم اشرف نے حسن علی کو بھی آؤٹ کردیا۔ چیڈوک والٹن نے حسن کا بہت ہی عمدہ کیچ لیا اور پشاور کے لیے ایک بڑے اسکور تک پہنچنا مشکل بنا دیا۔

آخری دو اوورز میں پشاور نے وہاب ریاض کی اننگز کی مدد سے 23 رنز کا اضافہ کیا اور مجموعے کو 148 رنز تک پہنچا دیا۔ وہاب ریاض کے 14 گیندوں پر 28 رنز کے باوجود پشاور آخری پانچ اوورز میں صرف 38 رنز بنا سکا اور اسی دوران اس کی چار وکٹیں بھی گریں۔ یعنی اسلام آباد کے باؤلرز نے بہت ہی عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیا۔ جہاں شاداب خان نے اپنے اوورز میں 25 رنز دے کر تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا، وہیں دو، دو وکٹیں سمیت پٹیل اور حسین طلعت نے بھی لیں۔

لیوک رونکی نے میچ اور ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی کے ایوارڈز جیتے جبکہ بہترین باؤلر کا اعزاز اسلام آباد یونائیٹڈ کے ہی فہیم اشرف نے حاصل کیا۔ بہترین فیلڈر کا تعلق بھی اسلام آباد سے ہی تھا جو فائنل کے کپتان جے پی دومنی تھے۔ البتہ بہترین بیٹسمین کا اعزاز کامران اکمل کو جبکہ بہترین وکٹ کیپر کا ملتان سلطانز کے کمار سنگاکارا کو ملا۔

مقابلے کو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، گورنر سندھ محمد زبیر، وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر آصف غفور، انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے سربراہ جائلز کلارک، صوبہ سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری، شاہد خان آفریدی، فائنل کھیلنے والی ٹیموں پشاور زلمی اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے مالکان جاوید آفریدی اور علی نقوی کے ساتھ کراچی کنگز کے مالک سلمان اقبال اور ملتان سلطانز کے مالک اشعر شون، اسلام آباد یونائیٹڈ کے برانڈ ایمبیسیڈر فواد خان اور پشاور زلمی کے ماہرہ خان اور حمزہ عباسی نے بھی میدان میں بیٹھ کر دیکھا۔ ان کی موجودگی میں آتش بازی کا ایک شاندار مظاہرہ بھی کیا گیا، جو کراچی کے باسیوں کو مدتّوں یاد رہے گا۔