پاکستان سپر لیگ، سب سے الگ اور سب سے جدا

1 1,584

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) دنیا کی کئی کرکٹ لیگز سے مختلف ہے ۔ ایک تو یہ دو مختلف ملکوں میں کھیلی جا رہی ہے جس کا پہلا اور بڑا مرحلہ متحدہ عرب امارات میں جبکہ دوسرا، چھوٹا لیکن اہم، مرحلہ پاکستان میں ہوگا ۔ لیکن اس کے علاوہ بھی پی ایس ایل میں بہت کچھ مختلف ہے جیسا کہ آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ یہاں دیگر لیگز کے مقابلے میں رنز کم بنتے ہیں ۔ ایک ایسا فارمیٹ، جس میں چھکوں اور چوکوں کی برسات کی امید ہوتی ہے اور باؤلرز مکمل طور پر بے بس نظر آتے ہیں، وہاں پی ایس ایل کے لو-اسکورنگ مقابلے قیامت ڈھا رہے ہیں۔

ذرا تقابل کرکے ہی دیکھ لیں۔ ابھی انڈین پریمیئر لیگ کا پچھلا سیزن ہوا جس میں 60 میچز میں 32 مرتبہ ٹیموں نے 180 رنز کا ہندسہ عبور کیا۔ بگ بیش کے تازہ سیزن میں 43 میچز میں 17 مرتبہ 180 کا ہندسہ چھوا گیا۔ انگلینڈ کے ٹی ٹوئنٹی بلاسٹ میں اس سیزن میں 26 مرتبہ ٹیموں نے 200 یا اس سے زیادہ رنز اسکور کیے۔ بنگلہ دیش پریمیئر لیگ میں بھی 14 مرتبہ 180 رنز سے زیادہ بنائے گئے۔ صرف کیریبیئن پریمیئر لیگ ایسی ہے جس میں 2017ء میں صرف 4 بار 180 سے زیادہ رنز بنے۔ لیکن پاکستان سپر لیگ میں دیکھیں، ابتدائی ڈھائی سیزنز میں صرف 10 بار کسی ٹیم نے 180 یا اس سے زيادہ رنز بنائے ہیں یعنی کہ 60 سے زیادہ میچز میں۔ آئی پی ایل اور بگ بیش تو آدھے سیزن میں ہی اتنی بار یہ سنگ میل عبور کر لیتے ہیں۔

پاکستان سپر لیگ ٹیمیں

اس کی دو اہم وجوہات ہیں، ایک تو متحدہ عرب امارات کی وکٹیں بلے بازوں کے لیے اتنی سازگار نہیں ہیں جتنی کہ سمجھی جاتی ہیں۔ رواں سال تو شارجہ ور دبئی میں بارش اور اس کی وجہ سے متاثر ہونے والی وکٹوں نے بھی بلے بازوں کے لیے پریشانی کھڑی کی ۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ بنگلور یا برسبین کے مقابلے میں دبئی میں باؤلرز کے لیے زیادہ مدد موجود ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پشاور زلمی کی طرف سے کھیلنے والے ویسٹ انڈين بیٹسمین ڈیوین اسمتھ نے کہا تھا کہ پاکستان سپر لیگ میں باؤلنگ کا جو معیار ہے وہ وہ بہت عمدہ ہے اور مجھے بڑی خوشی ہوئی تھی جب ہمارے خلاف میچ میں محمد عامر زخمی ہوکر باہر چلے گئے تھے۔

یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان کی اصل طاقت ہمیشہ سے باؤلنگ رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مقامی سطح پر اچھے بلے بازوں سے زیادہ معیاری باؤلرز سامنے آتے رہتے ہیں ۔ رواں سیزن ہی دیکھ لیں ابھی تک صرف ایک بار ایسا ہوا ہے کہ کسی ٹیم نے 180 رنز کا ہندسہ عبور کیا وہ بھی 16 ویں میچ میں جاکر ملتان نے کیا ۔ ورنہ میچز تو ایسے ہوئے ہیں کہ اسلام آباد صرف 121 رنز بنانے کے باوجود لاہور قلندرز کے خلاف مقابلہ ٹائی کر لیتا ہے اور پھر سپر اوور میں جیت جاتا ہے۔

پاکستان سپر لیگ کے کپتان

دنیا جہاں کی لیگز میں چھکے مارنا وہ بنیادی صلاحیت ہے جس پر ٹیمیں میچز جیتتی ہیں، نصف سنچریاں اور کبھی کبھی سنچریاں بھی بلکہ آئی پی ایل میں تو ایسی اننگز بھی کھیلی گئیں، جن کے سامنے ون ڈے کرکٹ کی اننگز بھی شرما جائیں، لیکن پی ایس ایل میں جب کوئی بیٹسمین 50 کا ہندسہ عبور کر جائے تو اسے بھی پتہ ہوتا کہ سنچری بنانا بہت مشکل ہے ۔ لاہور قلندرز کے کپتان برینڈن میک کولم کو لے لیں، دنیا جہاں کی لیگز میں باؤلرز کے چھکے چھڑاتے ہیں جبکہ پی ایس ایل میں ان کا بیٹنگ ایوریج 20 سے کچھ اوپر ہوگا۔

یعنی یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کھیل کا اصل توازن صرف پاکستان سپر لیگ نے برقرار رکھا ہے، باقی سب جگہ کھیل کی ایک بگڑی ہوئی شکل کو کرکٹ سمجھ کر کھیلا جا رہا ہے۔