آئرلینڈ، ٹیسٹ کرکٹ تک کا سفر

0 1,163

کرکٹ انگلینڈ کا کھیل ہے، اس لیے سات دہائیوں تک گائیلک ایتھلیٹک ایسوسی ایشن کے حکم تلے دبتا اور سڑتا رہا جس نے "غیر ملکی" کھیلوں کو کھیلنے یا دیکھنے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ جب 1971ء میں یہ "پابندی" ہٹائی گئی تو بھی ایک انگلش کھیل ہونا کرکٹ پر "داغ" موجود تھا۔ نیال اور کیون اوبرائن ڈبلن کے نواحی علاقے سینڈی ماؤنٹ میں واقع ریلوے یونین کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلنے جاتے تھے، جو آئرلینڈ میں کرکٹ کے چاہنے والوں کے لیے ایک پناہ گاہ تھا۔

ان دنوں کو بھول کر اب آج کا دن دیکھیں، سینڈی ماؤنٹ سے صرف 20 کلومیٹر دور نیال اور کیون اوبرائن کرکٹ کے اعلیٰ ترین فارمیٹ میں آئرلینڈ کی نمائندگی کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں کیونکہ آج ہے آئرلینڈ کی تاریخ کا پہلا ٹیسٹ میچ جو پاکستان کے خلاف کھیلا جائے گا۔

اس تاریخی موقع پر ضروری ہے کہ آئرلینڈ کرکٹ تاریخ کے چند یادگار لمحات پر نظر دوڑائی جائے۔ تو واپس چلتے ہیں 1969ء میں جب ایک چھوٹے سے گاؤں سیون ملز (Sion Mills) نے ایک ناقابل فراموش دن دیکھا۔ تب ویسٹ انڈیز انگلینڈ کے دورے پر تھا اور اسی جگہ پر اس کا آئرلینڈ کے ایک جز وقتی اسکواڈ کے ساتھ ایک مقابلہ طے تھا۔ یہ بے جوڑ مقابلہ سمجھا جا رہا تھا لیکن آج یہ آئرش کرکٹ کی دیومالائی داستان کا حصہ ہے۔

وکٹ کیپر اوسی کولہون، جو اس مقامی فیکٹری میں کام کرتے تھے جس کے 700 ملازمین کو اس روز میچ دیکھنے کی چھٹی بھی ملی تھی، اس روز کی کہانی بتاتے ہیں:

"ویسٹ انڈیز کی ٹیم ایک بس میں آئی تھی اور ہمارے پویلین میں داخل ہوئی، جو اس وقت بہت چھوٹا تھا۔ اس میں صرف ایک ٹوائلٹ تھا اور شاور تو تھا ہی نہیں۔ دونوں کپتان میدان میں اترے اور طے کیا کہ جو بھی ٹاس جیتا ویسٹ انڈیز پہلے بیٹنگ کرے گا۔ سب نے یہی سوچ رکھا تھا کہ ویسٹ انڈیز چھ وکٹوں پر تین، چار سو رنز بنائے گا اور آئرلینڈ کو 30 رنز پر آل آؤٹ کرے گا۔

لیکن ویسٹ انڈیز لارڈز میں ایک سخت پچ پر کھیل کر آیا تھا جبکہ یہ ایک نم اور دھیمی وکٹ تھی۔ اس لیے ان کے دونوں اوپنرز آئے اور اپنے شاٹ کھیلنے کی کوشش میں آؤٹ ہوگئے۔ تین وکٹیں تو آسانی سے گرگئیں، پھر ایک رن آؤٹ ہوا اور کلائیو لائیڈ نے بھی وکٹ دے دی۔ ان کے بیٹسمین گیند کو بارہا ہوا میں اٹھانے کی کوشش کرتے رہے اور اس سے پہلے کہ ہمیں بھی یقین آتا، ان کی 9 وکٹیں صرف 12 رنز پر گر چکی تھیں۔ یہ ماننا مشکل لگتا ہے اور بتانا تو اور زیادہ مشکل ہے۔ بہرحال، آخری جوڑی نے مزید 12 رنز کا اضافہ اور یوں ویسٹ انڈیز کی اننگز کا خاتمہ ہوگیا۔ لیکن میرے خیال میں 25 رنز آل آؤٹ اتنا بُرا اسکور نہیں تھا۔"

بہرحال، ویسٹ انڈیز کو 25 رنز پر آل آؤٹ کرنے کے بعد آئرلینڈ نے اپنی پہلی اننگز 8 وکٹوں پر 125 رنز بنا کر ڈکلیئر کردی تھی۔ ویسٹ انڈیز دوسری اننگز میں 4 وکٹوں پر 78 رنز بنا پایا اور دن ختم ہوگیا۔ یوں پہلی اننگز کی برتری کی بنیاد پر آئرلینڈ کو فاتح قرار دیا گیا۔

اوسی کے اپنے الفاظ میں "یہ ایک معجزہ تھا!"

آئرلینڈ پاکستان

اب ذرا چلتے ہیں 2007ء کی طرف۔ یہ آئرلینڈ کا پہلا ورلڈ کپ تھا اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آئرلینڈ کے لیے ایک لانچنگ پیڈ تھا۔ پاکستان کے خلاف گروپ مرحلے میں حاصل کردہ کامیابی نے ہر طرف آئرلینڈ کا غلغلہ مچا دیا۔

سینٹ پیٹرکس ڈے پر پاکستان کو 132 رنز پر آل آؤٹ کرکے آئرلینڈ نے نیال اوبرائن کے 72 رنز کی بدولت ہدف حاصل کیا۔ اوبرائن کے الفاظ میں "ہماری ٹیم میں ایک کسان تھا، ایک مصور، ایک ڈیکوریٹر، ایک ڈاکیا اور صرف تین یا چار کھلاڑی ایسے تھے جو پروفیشنل کرکٹر تھے۔ لیکن ٹیم میں صلاحیت بہت تھی۔ اس روز آسمان پر بادل تھے اور بارش کا بھی امکان تھا۔ جب پچ پر سے کورز ہٹائے گئے تو ہم حیران رہ گئے، یہ تو بالکل ویسی ہی وکٹ تھی جیسی ہمیں اپنے ملک میں ملتی ہے۔ پاکستان نے کم رنز بنائے لیکن اتنا ہمیں اندازہ تھا کہ تعاقب کرنا مشکل ہوگا کیونکہ ان کا باؤلنگ اٹیک کمال کا تھا۔ تب ہمیں ضرورت تھی ایک اچھے آغاز کی جو بدقسمتی سے ہمیں میسر نہیں آیا۔ پھر بھی کچھ چیزیں کام کرگئیں۔ جب میں 72 رنز پر آؤٹ ہوا تو مجھے لگا تھا کہ میں نے ٹیم کو ہروا دیا۔ پھر میرے آؤٹ ہوتے ہی دو مزید وکٹیں بھی گئیں۔ جیتنے کے لیے 18 رنز کی ضرورت تھی۔ کوچ تو اتنے پریشان تھے کہ وہ بجائے کھلاڑیوں کے ساتھ بیٹھنے کے ڈریسنگ روم میں چلے گئے اور وہاں ٹی وی پر میچ دیکھنے لگے۔"

تب نیال کے بھائی کیون اوبرائن نے کپتان ٹرینٹ جانسٹن کے ساتھ مل کر آئرلینڈ کو منزل تک پہنچایا۔ آخر میں کپتان نے چھکا مارا اور میچ کا خاتمہ کیا۔ جہاں آئرلینڈ کے لیے یہ ایک تاریخی دن تھا وہیں پاکستان کے لیے بدقسمت ترین ایام میں سے ایک تھا کیونکہ اس کے کوچ باب وولمر اس شکست کا صدمہ برداشت نہ کر سکے اور دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے۔ پاکستان کی ورلڈ کپ مہم بھی اس شکست کی وجہ سے اپنے اختتام کو پہنچی اور یوں وہ ایک مرتبہ پھر پہلے ہی مرحلے سے باہر ہوگیا۔

آئرلینڈ

اتنی بڑی کامیابی کے باوجود آئرلینڈ میں کچھ لوگ کرکٹ کو تب تک قبول نہ کرتے، جب تک کہ وہ انگلینڈ کو نہ ہراتا، یعنی بابائے کرکٹ اور روایتی حریف کو خود اس کے کھیل میں۔ یہ کارنامہ آئرلینڈ نے انجام دیا 2011ء میں بنگلور کے مقام پر، جب ورلڈ کپ میں آئرلینڈ نے اینڈریو اسٹراس الیون کو 11 ہزار وولٹ کا جھٹا دیا کیونکہ انگلینڈ 327 رنز بنانے کے باوجود یہ مقابلہ ہار گیا۔

اس مرتبہ ہیروے تھے نیال کے چھوٹے بھائی کیون اوبرائن کہ جن کی اننگز آج بھی ورلڈ کپ کی تاریخ کی بہترین باریوں میں شمار کی جاتی ہے۔ ایک ایسی باؤلنگ لائن کے خلاف کہ جیمز اینڈرسن اور اسٹورٹ براڈ جیسے باؤلرز بھی شامل ہوں، کیون نے ریکارڈ 50 گیندوں پر سنچری بنائی۔

کیون اوبرائن کے اپنے الفاظ میں "وہ ایک عظیم دن تھا، ایک ورلڈ کپ میچ پرانے دشمن کے خلاف۔ ہم 2007ء کے ورلڈ کپ میں انگلینڈ کے خلاف کھیل چکے تھے لیکن تب نتیجہ ہمارے حق میں نہیں آیا تھا لیکن یہاں ہم نے تاریخ کا دھارا پلٹ دیا۔"

"انگلینڈ نے پہلے کھیلتے ہوئے 327 رنز بنائے تھے لیکن ہم اس کے تعاقب میں بہت پُر اعتماد تھے۔ ہم دو سال سے اچھی کرکٹ کھیل رہے تھے اور اسی کے ساتھ ورلڈ کپ تک آئے تھے، پھر یہ وکٹ بھی اچھی اور میدان بہت چھوٹا تھا۔"

"پہلی ہی گیند پر کپتان ولیم پورٹرفیلڈ کی وکٹ تو گرگئی لیکن پال اسٹرلنگ اور ایڈ جوائس نے میدان سنبھال لیا اور ہم ایک اچھی پوزیشن میں آ گئے۔ لیکن پھر پے در پے وکٹیں گرگئیں۔"

جب کیون اوبرائن کریز پر آئے تو اسکور 106 رنز پر چار کھلاڑی آؤٹ تھا اور جلد ہی یہ 111 رنز پر 5 کھلاڑی آؤٹ ہوگیا۔

"مقابلہ تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ مجھے یہ الفاظ یاد ہیں کہ ایلکس کوسیک 20 اوورز تک کھڑے رہ سکتے ہیں اور اسکور کو 250 تک پہنچا سکتے ہیں تاکہ شکست ہو تو عزت کے ساتھ ہو، یا پھر ممکن تھا کہ ہم 180 رنز پر بھی آؤٹ ہوکر ہار جائیں؟ آخر پروا کسے تھی؟"

"پھر 10 اوورز میں مقابلہ پھر ہمارے حق میں جھکنے لگا۔ ہم نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ جب 15 اوورز رہ گئے اور 100 رنز درکار تھے تو میں جانتا تھا کہ ہم ہی جیتیں گے۔ یہ وہ دن تھا جب میری ہر ہٹ ٹھیک لگ رہی تھی اور اگر نہ بھی لگتی گیند فیلڈرز کے اوپر سے گزر رہی تھی۔ اینڈرائیڈ اسٹراس نے 91 رنز پر میرا کیچ چھوڑا، یعنی قسمت بھی ہمارے ساتھ تھی۔ بڑے ٹورنامنٹس اور بڑے مقابلوں میں آپ کو قسمت کا ساتھ بھی درکار ہوتا ہے۔"

کیون اوبرائن نے ورلڈ کپ کی تیز ترین سنچری کا ریکارڈ پوری 16 گیندوں کے فرق سے بہتر بنایا۔ "مجھے تو ریکارڈ کا پتہ ہی نہیں تھا اور نہ ہی میں اعداد و شمار میں دلچسپی رکھتا ہوں۔ ایک مرتبہ تہرے ہندسے میں پہنچنے کے بعد اگلی 13 گیندوں پر 13 رنز ہی بنا پایا اور پھر رن آؤٹ ہو گیا۔"

"میرے خیال میں 2007ء کی کامیابی بہت بڑی تھی۔ ہم نے اپنے پہلے ہی ورلڈ کپ میں اپنی آمد کا اعلان کیا لیکن 2011ء کی اس کامیابی نے ثابت کیا کہ وہ محض اتفاق نہیں تھا بلکہ ہم ایک اچھی ٹیم ہیں۔"

آج یہ اچھی ٹیم ایک ٹیسٹ ٹیم بن چکی ہے۔ آئرش کرکٹ نے گزشتہ کچھ دہائیوں میں کئی رکاوٹوں کو عبور کیا ہے اور اب کرکٹ کے اہم ترین کلب، ٹیسٹ کرکٹ، میں داخل ہو چکی ہے۔

- یہ مضمون بی بی سی اسپورٹس سے ترجمہ کیا گیا ہے۔