یہ رچی بینو اور عبد القادر کون تھے؟

جانیں پاک-آسٹریلیا سیریز کی "بینو-قادر ٹرافی" کن کھلاڑیوں کے نام پر ہے

0 1,002

پاکستان کرکٹ بورڈ نے پاک-آسٹریلیا ٹیسٹ سیریز کے لیے ٹرافی کی رونمائی کر دی ہے اور ساتھ ہی اسے باضابطہ طور پر "بینو-قادر ٹرافی" کا نام بھی دے دیا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے آسٹریلیا اور بھارت کی سیریز بارڈر-گاوسکر ٹرافی کہلاتی ہے۔

یہ سیریز تو ویسے ہی تاریخی ہے لیکن یہ قدم بھی ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ پاکستان کی ٹیسٹ سیریز ہوگی جو کسی کھلاڑی سے موسوم ہوئی ہے۔

عبد القادر کو تو پاکستان میں شائقینِ کرکٹ اچھی طرح جانتے اور پہچانتے ہیں۔ بلاشبہ وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ خاص طور پر اُس نسل میں تو بالکل نہیں کہ جنہوں نے 70ء اور 80ء کی دہائی میں کرکٹ دیکھی ہے۔ لیکن جو آجکل کے کرکٹ فینز ہیں، ان کے لیے یہ تعارف بھی ہو جائے کہ وہ لیگ اسپنر عثمان قادر کے والد اور بیٹسمین عمر اکمل کے سُسر تھے اور جنوبی افریقہ کے عمران طاہر کے استاد بھی۔

عبد القادر نے اُس زمانے میں لیگ اسپن کے آرٹ کو زندہ کیا، جو فاسٹ باؤلرز کا دور تھا۔ عمران خان، میلکم مارشل، مائیکل ہولڈنگ، جوئیل گارنر، ڈینس للی، رچرڈ ہیڈلی، کپل دیو اور این بوتھم جیسے باؤلرز کا عہد تھا لیکن عبد القادر نے لیگ اسپن کے ذریعے وہ عروج حاصل کیا کہ ان کے بعد دنیائے کرکٹ کو کئی لیگ اسپنرز ملے۔

عبد القادر نے اپنا پہلا ٹیسٹ 1977ء میں انگلینڈ کے خلاف لاہور میں کھیلا تھا اور پھر 16 سالہ کیریئر میں 67 ٹیسٹ اور 104 ون ڈے میچز کھیلے، جن میں انہوں نے 368 انٹرنیشنل وکٹیں حاصل کیں۔

ٹیسٹ میں عبد القادر کی سب سے نمایاں کارکردگی ایک اننگز میں 56 رنز دے کر 9 وکٹیں تھیں۔ یہ نہ صرف اُن کی ذاتی بلکہ تاریخ کی بہترین باؤلنگ کارکردگیوں میں سے ایک ہے۔

یہ لاہور ہی کا میدان تھا کہ جہاں 1987ء میں انگلینڈ کے دورۂ پاکستان کا پہلا ٹیسٹ کھیلا گیا تھا۔ یہاں عبد القادر نے پہلی اننگز میں 37 اوورز میں 56 رنز دے کر 9 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا تھا۔ واحد وکٹ تو عبد القادر کے ہاتھوں سے بچی وہ ڈیوڈ کیپل کی تھی جو توصیف احمد کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے تھے۔ عبد القادر نے دوسری اننگز میں بھی 4 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور پاکستان کی ایک اننگز اور 87 رنز کی فتح میں مرکزی کردار ادا کیا۔

کیونکہ یہ سیریز آسٹریلیا کے خلاف ہے تو اس کے مقابلے میں عبد القادر کی کارکردگی بھی معنی رکھتی ہے۔ آسٹریلیا کے خلاف عبد القادر نے 11 ٹیسٹ میچز کھیلے، جن میں 45 وکٹیں حاصل کیں۔ ان میں سے پانچ مقابلے آسٹریلیا میں کھیلے گئے تھے جن میں انہوں نے 12 شکار کیے تھے۔

عبد القادر 7 ستمبر 2019ء کو لاہور میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے تھے۔ ان کی عمر تقریباً 64 سال تھی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے گزشتہ سال عبد القادر کو "پی سی بی ہال آف فیم" میں شامل کیا تھا۔ اب کچھ مہینوں بعد اتنی اہم سیریز کی ٹرافی کو ان سے موسوم کرنا ایسا اعزاز ہے جس کے عبد القادر واقعی حقدار تھے۔

عبد القادر کے مقابلے میں رچی بینو ذرا پرانے کھلاڑی تھے۔ آپ نے 1952ء سے 1964ء کے درمیان 63 ٹیسٹ میچز میں آسٹریلیا کی نمائندگی کی اور 248 وکٹیں حاصل کیں۔ آپ ٹیسٹ کرکٹ میں 200 وکٹیں اور 2 ہزار رنز بنانے والے پہلے کرکٹر تھے۔ رچی اپنے زمانے کے بہترین لیگ اسپنر تو تھے ہی لیکن ان کی ایک اور وجہ شہرت ان کی کمنٹری تھی۔ وہ 80ء اور 90ء کی دہائی کے مشہور ترین کمنٹیٹر تھے اور اس زمانے کے کئی یادگار لمحات ایسے ہیں جن میں پسِ پردہ آواز ہمیں رچی بینو ہی کی نظر آتی ہے۔

رچی نے پاکستان کے دو دورے کیے۔ وہ 1956ء میں پاکستان کا دورہ کرنے والی پہلی آسٹریلوی ٹیم کا حصہ بھی تھے جبکہ تین سال بعد جب آسٹریلیا نے دوبارہ پاکستان کا دورہ کیا تھا تو تب بھی ٹیم کے ساتھ پاکستان آئے تھے۔ ان دونوں دوروں میں انہوں نے پاکستان کے خلاف کُل 4 ٹیسٹ میچز کھیلے اور 19 وکٹیں حاصل کیں۔

رچی بینو نے 28 میچز میں آسٹریلیا کی قیادت بھی کی اور ریٹائرمنٹ کے بعد صحافت سے وابستہ ہو گئے۔ کھیل کی گہری اور عملی معلومات کے ساتھ ساتھ وہ جدید دماغ بھی رکھتے تھے۔ اسی لیے 1977ء میں ورلڈ سیریز کے انعقاد کے لیے کیری پیکر کی نظر انہی پر پڑی۔ آپ شین وارن کے استاد بھی تھے۔

ویسے رچی بینو عبد القادر کے بڑے قدر دان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی 'عظیم ترین الیون' میں عبد القادر کو شامل کیا تھا۔

رچی بینو 10 اپریل 2015ء کو 84 سال کی عمر میں چل بسے۔