آسٹریلیا کا دورۂ پاکستان، تاریخ پر ایک نظر

‏1956ء سے 1998ء تک 42 سال پر محیط آسٹریلیا کے دوروں کا مختصر احوال

0 1,001

پاکستان سپر لیگ کا بخار بالآخر اتر گیا۔ لاہور قلندرز کی یادگار کامیابی کے بعد اب جذبات بھی معمول پر آ چکے ہوں گے اور آنا ضروری بھی ہیں کیونکہ اب ہے 'اصل تے وڈا مقابلہ': پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا!

یہ ایک تاریخی دورہ ہے، تاریخی اس لیے کیونکہ آسٹریلیا کے آخری دورۂ پاکستان کے سال پیدا ہونے والے بچے آج 24 سال کے گبرو جوان ہیں۔ یعنی ہمیں تقریباً ربع صدی کے بعد پاکستان کے میدانوں پر آسٹریلیا کے کھلاڑیوں کے جلوے دیکھنے کو ملیں گے۔

پاکستان کی کرکٹ جلا وطنی

ویسے یہ پہلا موقع ہے کہ آسٹریلیا کے پاکستان کے دو دوروں میں اتنا طویل وقفہ آیا ہو، جس کی وجہ آپ جانتے ہی ہوں گے۔ اصل میں 2001ء میں نائن الیون کے بعد اس خطے میں ایک جنگ چھڑی جس میں پاکستان صفِ اول میں ہونے کی وجہ سے بُری طرح متاثر ہوا۔ یہاں تک کہ 2009ء میں پاکستان کے دورے پر موجود سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا اور ملک پر کرکٹ کے دروازے بند ہو گئے۔

ویسے تو پاکستان تقریباً دو دہائیوں سے اپنی کئی 'ہوم سیریز' دیارِ غیر میں کھیل رہا ہے۔ کبھی سری لنکا میزبان بنا تو کبھی انگلینڈ اور کبھی متحدہ عرب امارات۔ لیکن 2009ء کے بعد چھ سال ایسے آئے کہ کسی ٹیم نے پاکستان کا رُخ تک نہیں کیا۔ اس دوران 2011ء کے ورلڈ کپ کی میزبانی تک پاکستان سے چھنی۔ لیکن اب لگتا ہے یہ سب ماضی کا قصہ بننے والا ہے۔

بالآخر کرکٹ واپسی

آج سے دو سال پہلے 2019ء پاکستان میں تقریباً 10 سال بعد پہلی بار کوئی مکمل ٹیسٹ سیریز کھیلی گئی۔ یہ سری لنکا ہی تھا کہ جس نے یہ تاریخی قدم اٹھایا۔ پھر 2020ء میں بنگلہ دیش اور 2021ء میں جنوبی افریقہ کے دوروں سے پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ مکمل طور پر بحال ہوئی۔ اب آسٹریلیا کا دورۂ پاکستان اس سلسلے میں اگلا اور بہت بڑا قدم ہوگا۔ کیونکہ آسٹریلیا دنیا کی صفِ اول کی ٹیم ہے، اگر وہ پاکستان کا دورہ کرتی ہے تو کسی کے لیے کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔

سری لنکا ہی وہ پہلی ٹیم تھی جس نے 2009ء کے بعد پہلی بار پاکستان میں کوئی ٹیسٹ کھیلا

بہرحال، آج ہم آسٹریلیا کے پاکستان کے دوروں کی تاریخ بلکہ صرف ٹیسٹ تاریخ بیان کریں گے، جو صرف 42 سال پر محیط ہے۔ 1956ء سے 1998ء تک۔ اس کے بعد 24 سال ایسے آئے جن میں پاکستان کے میدان آسٹریلیا کی میزبانی سے محروم رہے۔

آسٹریلیا کے ابتدائی دورۂ پاکستان

آسٹریلیا نے پہلی بار 1956ء میں صرف ایک ٹیسٹ کھیلنے کے لیے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ کیتھ ملر، رچی بینو، رے لِنڈوال اور نیل ہاروی جیسے عظیم کھلاڑی پاکستان آئے تھے لیکن پاکستان کے تیز باؤلرز فضل محمود اور خان محمد کی جوڑی کے سامنے اُن کی ایک نہیں چلی۔ واحد ٹیسٹ میں فضل محمود کی 13 اور خان محمد کی 7 وکٹوں کی بدولت پاکستان 9 وکٹوں سے زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔

ٹھیک تین سال بعد، 1959ء میں ٹیم آسٹریلیا پہلی بار ایک مکمل سیریز کھیلنے پاکستان آئی۔ ڈھاکا، لاہور اور کراچی نے تین ٹیسٹ میچز کی میزبانی کی، جن میں سے پہلے دونوں مقابلے آسٹریلیا نے جیتے جبکہ آخری ٹیسٹ ڈرا ہوا۔ یعنی پاکستان کو ‏2-0 سے شکست ہوئی۔

ویسے کراچی میں کھیلے گئے آخری ٹیسٹ کو ایک اعزاز حاصل ہے کہ یہ تاریخ کا واحد کرکٹ میچ ہے جو کسی امریکی صدر نے دیکھا۔ یہ امریکا کے 34 ویں صدر ڈیوائٹ ڈی آئزن ہاور تھے جو دسمبر 1959ء میں پاکستان کے دورے پر تھے۔ کراچی ٹیسٹ کے چوتھے روز صدر ایوب خان اور صدر آئزن ہاور نے میچ کا پہلا سیشن دیکھا بلکہ اس سے پہلے کھلاڑیوں سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔

آٹھ سال میں تیسرا دورہ

آسٹریلیا کا اگلا دورۂ پاکستان 1964ء میں آیا۔ یعنی 8 سال میں تیسرا دورہ۔ اس مرتبہ صرف ایک ٹیسٹ کھیلا گیا تھا، جس میں بہت سخت مقابلہ دیکھنے کو ملا۔ خالد عباد اللہ کے 166 رنز اور وکٹ کیپر عبد القادر کے ساتھ ان کی 249 رنز کی اوپننگ پارٹنرشپ اس میچ کی سب سے نمایاں جھلک تھی۔ پاکستان کے 414 رنز کے جواب میں آسٹریلیا بھی خوب کھیلا، خاص طور پر کپتان باب سمپسن نے دونوں اننگز سنچریاں بنائیں۔ البتہ میچ نتیجہ خیز نہیں بن سکا۔

اسّی کی دہائی میں آسٹریلیا کی دُہائی

پھر ایک طویل وقفہ آیا۔ 16 سال تک آسٹریلیا نے پاکستان کا رخ نہیں کیا۔ 1980ء وہ سال تھا جب آسٹریلیا تین ٹیسٹ میچز کھیلنے کے لیے پاکستان آیا۔ کراچی، فیصل آباد اور لاہور نے ٹیم آسٹریلیا کی میزبانی کی جن میں سے پہلا ٹیسٹ کراچی میں پاکستان نے 7 وکٹوں سے جیتا۔ اقبال قاسم اور توصیف احمد کے بچھائے گئے اسپن جال میں کے سامنے آسٹریلیا بُری طرح پھنسا۔

اگلے دونوں میچز میں آسٹریلیا کے بلے بازوں نے نمایاں کارکردگی دکھائی لیکن پہلے ٹیسٹ کی شکست کا ازالہ ممکن نہ ہو سکا۔ البتہ دوسرے ٹیسٹ میں کپتان گریگ چیپل اور جواب میں پاکستانی وکٹ کیپر تسلیم عارف کی ڈبل سنچریاں نمایاں رہیں۔ تیسرے ٹیسٹ کی خاص بات دونوں اننگز میں ایلن بارڈر کی 150 پلس اننگز تھیں۔ لیکن یہ دونوں ٹیسٹ بے نتیجہ ثابت ہوئے اور پاکستان سیریز ‏1-0 سے جیت گیا۔

ایلن بارڈر کرکٹ تاریخ کے واحد بیٹسمین ہیں جنہوں نے کسی ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں 150 سے زیادہ رنز کی اننگز کھیلی ہوں

اسّی کی دہائی میں آسٹریلیا تواتر کے ساتھ پاکستان آیا۔ 1982ء اور 1988ء میں بھی۔ 1982ء میں کراچی فیصل آباد اور لاہور ہی نے ٹیسٹ میچز کی میزبانی کی اور یہاں تو پاکستان نے کمال ہی کر دیا۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان بلاشبہ دنیا کی مضبوط ترین ٹیموں میں شمار ہوتا تھا اور اگر کوئی عظیم ویسٹ انڈیز کو بھی ٹکر دے سکتا تھا تو وہ پاکستان ہی تھا۔ تب عمران خان، ظہیر عباس، جاوید میانداد، محسن خان، وسیم باری، ہارون رشید، عبد القادر اور اقبال قاسم جیسے نام ٹیم کا حصہ تھے۔ جن کی مدد سے پاکستان نے آسٹریلیا کو تینوں میچز میں شکست دی، وہ بھی ناقابلِ یقین انداز میں۔ پہلا ٹیسٹ 9 وکٹوں سے، دوسرا ایک اننگز اور 3 رنز سے اور تیسرا بھی 9 وکٹوں سے۔

اس سیریز میں محسن خان اور ظہیر عباس نے سب سے زیادہ رنز بنائے تھے جبکہ سب سے زیادہ وکٹیں عبد القادر نے لیں، صرف تین ٹیسٹ میچز میں 22 وکٹیں۔ عبد القادر دونوں پہلے ٹیسٹ میں میچ کے اور آخر میں سیریز کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔

عبد القادر سیریز کے بہترین کھلاڑی قرار پائے

پھر 1988ء کا دورہ آیا اور یہاں بھی آسٹریلیا کا خوب 'سواگت' ہوا۔ پہلے ٹیسٹ میں پاکستان نے ایک اننگز اور 188 رنز سے کامیابی حاصل کی۔ یہ آج بھی آسٹریلیا کے خلاف پاکستان کی سب سے بڑی فتح ہے۔ میچ کی خاص بات تھی پاکستان کی واحد اننگز میں جاوید میانداد کی ڈبل سنچری۔

فیصل آباد اور لاہور ٹیسٹ میں 'مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا،' لیکن آسٹریلیا پاکستان کو زیر نہیں کر پایا۔ البتہ لاہور میں کھیلا گیا تیسرا ٹیسٹ خاصا دلچسپ ہو گیا تھا۔ آسٹریلیا کے 340 رنز کے جواب میں پاکستان کی پہلی اننگز صرف 233 رنز پر ہی مکمل ہو گئی۔ آسٹریلیا نے دوسری اننگز 161 رنز پر ڈکلیئر کر کے آخری روز پاکستان کو جیتنے کے لیے 269 رنز کا ہدف دیا۔ یہاں پیٹر ٹیلر اور ٹم مے کی عمدہ باؤلنگ کے سامنے پاکستان ہارتے ہارتے بچا۔ جب دن کا آخری اوور مکمل ہوا تو اسکور بورڈ پر رنز تو صرف 153 تھے لیکن پاکستان کی 8 وکٹیں گر چکی تھیں۔ یہ آخر میں اعجاز احمد کے 83 گیندوں پر 15 اور اقبال قاسم کے 47 گیندوں پر 10 رنز تھے جنہوں نے پاکستان کو بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

اس سیریز میں ڈین جونز، اسٹیو واہ، ایلن بارڈر، این ہیلی، ڈیوڈ بون جیسے کئی بڑے ناموں نے شرکت کی تھی۔ یہ ٹیم پاکستان کو شکست تو نہیں دے پائی لیکن آخر کے دو ٹیسٹ میچز میں بہت جم کر مقابلہ کیا۔

یادگار اور متنازع ترین پاک-آسٹریلیا سیریز

بہرحال، پاکستان اور آسٹریلیا کی سب سے یادگار اور ہنگامہ خیز سیریز 1994ء کی تھی۔ تب پاکستان میں کرکٹ کی مقبولیت اپنے عروج پر تھی کیونکہ پاکستان عالمی چیمپیئن تھا۔ اس سیریز کا پہلا ٹیسٹ کراچی میں ہوا تھا جو نہ صرف پاک-آسٹریلیا بلکہ کرکٹ کی تاریخ کے یادگار ترین ٹیسٹ میچز میں شمار کیا جاتا ہے۔

پاک-آسٹریلیا ٹیسٹ سیریز 1994ء کا فیصلہ کرنے والا لمحہ، جب پاکستان صرف 1 وکٹ سے جیتا

پہلی اننگز میں آسٹریلیا کے 337 رنز کے جواب میں پاکستان سعید انور کے 85 اور آخر میں وسیم اکرم کے 39 رنز کی بدولت 256 رنز تک پہنچا۔ یہ خسارہ اُس وقت نقصان دہ ثابت ہوا جب ڈیوڈ بون کے 114 اور مارک وا کے 61 رنز کی مدد سے آسٹریلیا دوسری اننگز میں بھی 232 رنز بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ وسیم اکرم اور وقار یونس نے باقی بلے بازوں کو تو ٹھکانے لگا دیا لیکن ان دونوں کی اننگز پاکستان کے لیے بڑا مسئلہ کھڑا کر چکی تھی کیونکہ اب اسے جیت کے لیے 314 رنز کا ہدف درکار تھا۔

‏148 رنز تک تو پاکستان کے صرف دو آؤٹ تھے اور معاملات گرفت میں لگتے تھے لیکن پھر شین وارن نے اپنا جادو دکھانا شروع کر دیا۔ 184 رنز تک پہنچتے پہنچتے پاکستان کی 7 وکٹیں گر چکی تھیں۔

‏"وہ" آخری گیند!

یہاں انضمام الحق نے وہ اننگز کھیلی جسے تاریخ کی بہترین باریوں میں شمار کیا جانا چاہیے۔ آخری وکٹ پر مشتاق احمد کے ساتھ 57 رنز کی شراکت داری نے پاکستان کو فتح سے ہمکنار کیا۔ لیکن اس میں ایک تیسرے کھلاڑی کا بھی بڑا کردار تھا، قسمت کا۔ آخری گیند ہی میچ کا سب سے شاندار لمحہ تھی، شین وارن کی گیند پر فاتحانہ شاٹ لگانے کے لیے انضمام الحق آگے بڑھے لیکن گیند نہ صرف انہیں بلکہ وکٹ کیپر این ہیلی کو بھی دھوکا دے گئی، جو 'انضی' کو اسٹمپ کرنے کا موقع ضائع کر بیٹھے اور بائے کے 4 رنز کی بدولت پاکستان یہ ٹیسٹ صرف 1 وکٹ سے جیت گیا۔ اس سے کم مارجن کی جیت مل نہیں سکتی تھی۔

انضمام الحق 89 گیندوں پر 58 جبکہ مشتاق احمد 30 گیندوں پر 20 قیمتی رنز کے ساتھ فاتحانہ میدان سے واپس آئے۔

ماضی کی طرح اگلے دونوں ٹیسٹ ڈرا ہوئے لیکن مقابلہ خوب ہوا۔ راولپنڈی میں تو پاکستان پہلی اننگز میں فالو آن کا شکار ہونے کے باوجود بچ گیا، سلیم ملک کی شاندار ڈبل سنچری کی بدولت۔ تیسرا ٹیسٹ بھی کسی نتیجے تک پہنچے بغیر ختم ہوا۔

سلیم ملک کا عروج، یا زوال؟

اس سیریز میں سلیم ملک واقعی اپنے عروج پر دکھائی دیے۔ صرف تین میچز میں انہوں نے 557 رنز بنائے جن میں دو سنچریاں اور ایک نصف سنچری شامل تھی۔ لیکن یہی وہ سیریز تھی کہ جس کے حوالے سے وہ انتہائی متنازع کردار بھی بنے۔ آسٹریلیا کے کھلاڑیوں مارک واہ اور شین وارن نے الزام عائد کیا کہ سلیم ملک نے انہیں میچ فکسنگ پر اکسایا تھا کہ وہ پیسوں کے بدلے میچ میں خراب کارکردگی پیش کریں۔ اس الزام کی تحقیقات تو کی گئیں لیکن سلیم ملک بری قرار پائے۔ البتہ 1998ء میں جسٹس قیوم کمیشن نے ان پر تاحیات پابندی عائد کی۔

باؤلرز میں شین وارن نے اس سیریز میں خوب کمالات دکھائے تھے۔ انہوں نے تین ٹیسٹ میچز میں 18 وکٹیں حاصل کی تھیں لیکن یہ سیریز انہی دونوں کھلاڑیوں کی وجہ سے آج تک متنازع سمجھی جاتی ہے۔

تقریباً 40 سال بعد آسٹریلیا کی پہلی سیریز

پھر آسٹریلیا کا آخری دورۂ پاکستان آتا ہے، 1998ء میں جس میں آسٹریلیا نے ‏1-0 سے کامیابی حاصل کی تھی۔ یعنی 1959ء کے بعد پہلی بار پاکستان میں ٹیسٹ سیریز جیتی۔

اس سیریز میں کہانی بالکل الٹی ہو گئی۔ پہلے پاکستان پہلا ٹیسٹ جیتتا تھا اور باقی دونوں ڈرا کر کے سیریز اپنے نام کرتا تھا۔ لیکن یہاں راولپنڈی میں کھیلا گیا پہلا ٹیسٹ آسٹریلیا نے اننگز اور 99 رنز سے جیتا۔ پہلی اننگز میں 244 رنز کے خسارے کے بعد پاکستان دوسری اننگز میں صرف 145 رنز پر آل آؤٹ ہو گیا اور یوں میچ ایک اننگز سے ہار گیا۔

فاتحِ پشاور، مارک ٹیلر

پشاور میں کھیلے گئے دوسرے ٹیسٹ تو رنز کے انبار لگ گئے۔ مارک ٹیلر نے ٹرپل سنچری بنائی، بلکہ 334 رنز پر ناٹ آؤٹ رہے۔ یوں انہوں نے عظیم ڈان بریڈمین کی طویل ترین اننگز کا ریکارڈ برابر کیا اور یہیں پر اننگز بھی ڈکلیئر کر دی یعنی اس ریکارڈ کو نہیں توڑا۔ بہرحال، آسٹریلیا نے پہلی اننگز 599 رنز پر ڈکلیئر کی تو پاکستان نے اعجاز احمد کے 155، سعید انور کے 126 اور انضمام الحق 97 رنز کی بدولت 580 رنز تک پہنچ گیا۔ آسٹریلیا کی دوسری اننگز 289 رنز تک پہنچی اور میچ ڈرا ہو گیا۔ یعنی اس میچ میں تین اننگز میں 1468 رنز بنے لیکن کوئی ٹیم ایک بار بھی آل آؤٹ نہیں ہو سکی۔

دوسرے اور تیسرے ٹیسٹ میں پاکستان نے جواب دینے کی بھرپور کوشش کی لیکن دونوں میچز نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے اور یوں پاکستان 1959ء کے بعد پہلی بار آسٹریلیا کے خلاف ہوم سیریز ہار گیا۔

ویسے یہ وہی سیریز تھی جس میں شاہد آفریدی نے اپنا ٹیسٹ ڈیبو کیا تھا۔ یہ سیریز کا کراچی میں کھیلا گیا تیسرا ٹیسٹ تھا جس کے ذریعے شاہد آفریدی نے اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا بلکہ پہلی ہی اننگز میں 52 رنز دے کر پانچ کھلاڑیوں کو آؤٹ بھی کیا تھا۔ لیکن یہ میچ بھی کسی نتیجے تک نہیں پہنچ پایا۔

مجموعی طور پر پاک سرزمین پر آسٹریلیا اور پاکستان کے مابین 20 ٹیسٹ میچز کھیلے گئے ہیں جن میں سے 7 پاکستان نے جیتے ہیں اور صرف 3 آسٹریلیا نے کامیابی حاصل کی۔ زیادہ تر یعنی 10 مقابلے کسی نتیجے پر نہیں پہنچے۔

یہ تو پاکستان میں کھیلے گئے پاک-آسٹریلیا ٹیسٹ تھے لیکن یاد رہے کہ پاکستان نے گزشتہ 20 سال کے دوران اپنی کئی ہوم سیریز نیوٹرل میدانوں پر کھیلی ہیں۔

داستان نیوٹرل میدانوں کی

پچھلی دو دہائیوں میں پاکستان نے آسٹریلیا کی میزبانی متعدد بار نیوٹرل گراؤنڈز پر کی ہے۔ جیسا کہ 2002ء میں نائن الیون کے بعد ایک پاک-آسٹریلیا ٹیسٹ کولمبو میں کھیلا گیا تھا اور پھر دو شارجہ میں۔ یہ دونوں شارجہ ٹیسٹ تو پاکستان کی تاریخ کے بد ترین میچز تھے۔

[آج کا دن] شارجہ سے وابستہ پاکستان کی بدترین یاد

پھر ‏2010ء میں آسٹریلیا کے خلاف ہوم سیریز انگلینڈ میں ہوئی تھی۔ یہاں پاکستان نے لیڈز میں کامیابی حاصل کر کے سیریز برابر کی تھی۔

دبئی اور ابو ظبی راس آ گئے

پاکستان نے 2014ء میں آسٹریلیا کی متحدہ عرب امارات میں میزبانی کی تھی، اور کیا خوب کی تھی۔ پہلے ٹیسٹ میں یونس خان کی ڈبل سنچری اور دوسری اننگز میں کپتان مصباح الحق کی تیز ترین ٹیسٹ سنچری کے ریکارڈز نے تہلکہ مچا دیا تھا۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ آخری اننگز میں پاکستانی اسپنرز کی زبردست باؤلنگ نے پوری کر دی اور آسٹریلیا، مائیکل کلارک کا آسٹریلیا جو دنیا بھر کو آنکھیں دکھاتا تھا، 356 رنز کے بد ترین مارجن سے ہارا۔ دوسرے ٹیسٹ میں پھر یونس خان آسٹریلیا کے سامنے ڈٹ گئے اور باقی کا کام اسپنرز نے کیا اور پاکستان کو ملی 221 رنز کی فتح۔

"چھپڑ پھاڑ کے"، پاکستان کا آسٹریلیا کے خلاف کلین سویپ

‏2018ء میں بھی کہانی کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی۔

پہلا ٹیسٹ دبئی میں ہوا جہاں پاکستان کے 482 رنز کے جواب میں آسٹریلیا کی پہلی اننگز محمد عباس کے سامنے صرف 202 رنز پر ختم ہوئی۔ پاکستان نے آخر میں آسٹریلیا کو 462 رنز کا ہدف دیا۔ یہاں پر عثمان خواجہ کی سنچری اور آخر میں کپتان ٹم پین کی بھرپور مزاحمت کی وجہ سے آسٹریلیا شکست سے بال بال بچ گیا۔ نویں وکٹ پر پین نے نیتھن لاین کے ساتھ مل کر 12 اوورز تک پاکستانی باؤلنگ کا مقابلہ کیا اور میچ بچا لیا۔

لیکن دوسرے ٹیسٹ میں وہ اتنے خوش قسمت ثابت نہیں ہوئے۔ پاکستان نے پہلی اننگز میں صرف 282 رنز بنانے کے باوجود کمال ہی کر دیا۔ محمد عباس کی شاندار باؤلنگ کے سامنے آسٹریلیا صرف 145 رنز پر ڈھیر ہو گیا۔ پاکستان نے دوسری اننگز میں 400 رنز بنا کر آسٹریلیا کو 538 رنز کا ہدف دیا اور عباس کو پھر سامنے لا کھڑا کر دیا۔ جنہوں نے میچ میں 10 وکٹیں حاصل کیں اور پاکستان کو 373 رنز سے کامیابی دلائی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ آسٹریلیا نہیں بلکہ زمبابوے کو ہرایا ہے۔ ہمیں تو یہ بھی یاد نہیں آ رہا کہ آسٹریلیا کو کسی نے آخری بار اتنی بُری طرح ہرایا ہو۔

بہرحال، اب دیکھتے ہیں کہ راولپنڈی، کراچی اور لاہور میں قومی ٹیم کیا کارنامے دکھاتی ہے۔