وہ دن جب مائیکل ہسی نے پاکستانیوں کی ہنسی چھین لی

0 1,001

قائم چاند پوری کا ایک ضرب المثل شعر ہے

قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند

کچھ دُور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا

یہ شعر 14 مئی 2010ء کو ہمیں اتنی اچھی طرح سمجھ میں آیا کہ کسی تشریح کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ یہ وہی دن تھا جب پاکستان مسلسل تیسری بار ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پہنچا اور اپنے اعزاز کے کامیاب دفاع کے لیے فائنل سے بھی بس دو چار ہاتھ دُور ہی تھا کہ مائیکل ہسی آڑے آ گئے!

آسٹریلیا کی جانب سے بیٹنگ کی دعوت کا پاکستان نے خوب فائدہ اٹھایا اور صرف 6 وکٹوں پر 191 رنز بنا ڈالے۔ یہ اپنے زمانے میں کافی سے زیادہ اسکور تھا کیونکہ تب ٹی ٹوئنٹی میں شاذ ہی کوئی ٹیم 200 کا ہندسہ عبور کر پاتی تھی۔ اس میں اکمل برادران یعنی کامران اکمل اور عمر اکمل کی دھواں دار بلے بازی کا کردار بنیادی تھا۔

آسٹریلیا 192 رنز کے تعاقب میں نکلا تو ابتدا ہی میں لڑکھڑا گیا۔ پہلے اوور میں ڈیوڈ وارنر کی قیمتی وکٹ گری اور پھر یہ سلسلہ چلتا ہی رہا۔ یہاں تک کہ تیرہویں اوور میں صرف 105 رنز پر آدھی ٹیم آؤٹ ہو چکی تھی۔ یہاں پر میدان میں اترے مائیکل ہسی، اُس وقت جب آسٹریلیا کو 87 رنز درکار تھے، وہ بھی صرف 45 گیندوں پر۔

معاملہ آخری تین اوور میں 48 رنز تک پہنچا تو ہسی کا ساتھ دینے والا کوئی مستند بیٹسمین نہیں بچا تھا۔ ایک طرف تنہا مائیکل ہسی تھے اور دوسری جانب پاکستانی باؤلرز کے فتح کی جانب بڑھتے ہوئے قدم۔

یہاں ہسی نے وہ کر دکھایا، جس کا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ آخری اوور میں جب آسٹریلیا کو 18 رنز درکار تھے۔ انہوں نے پہلی گیند پر اسٹرائیک ملنے کے بعد مسلسل چار گیندوں پر سعید کو تین چھکے اور ایک چوکا رسید کر کے میچ کا خاتمہ کر دیا۔

پاکستانی شائقین حیران و پریشان رہ گئے کہ یہ پل بھر میں کیا ماجرا ہو گیا؟ وہ سعید اجمل جنہوں نے اپنے پچھلے دو اوورز میں صرف 11 رنز دیے تھے، آخری اوور میں اتنی بُری طرح کیسے پٹ گئے؟ لیکن حقیقت یہی تھی اور اسے بالآخر قبول کرنا ہی تھا۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2010ء - سیمی فائنل

آسٹریلیا بمقابلہ پاکستان

نتیجہ: آسٹریلیا 3 وکٹوں سے جیت گیا

پاکستان191-6
عمر اکمل5635
کامران اکمل5034
آسٹریلیا باؤلنگامرو
اسٹیون اسمتھ20231
ڈیوڈ ہسی30241
آسٹریلیا 🏆197-7
مائیکل ہسی60*24
کیمرون وائٹ4331
پاکستان باؤلنگامرو
محمد عامر40353
عبد الرحمٰن40332

پاکستان پہلی بار ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل سے باہر ہو گیا۔ اس سے پہلے 2007ء اور 2009ء دونوں ورلڈ کپس میں پاکستان فائنل تک پہنچا تھا اور ایک مرتبہ کامیابی حاصل کر کے چیمپیئن بھی بنا۔ یہ ٹیم کے تمام اراکین کے لیے مشکل وقت تھا لیکن سعید اجمل کے کیریئر کا تو بد ترین لمحہ تھا۔

وہ سعید کہ جنہوں نے ڈیبیو ہی تقریباً 32 سال کی عمر میں کیا، محض دو سال کی کرکٹ کے بعد اس مقام پر کھڑے تھے کہ ان کے خیر خواہ بھی کرکٹ چھوڑ دینے کا مشورہ دے رہے تھے۔ لیکن سعید اجمل ہارے ضرور تھے، لیکن ٹوٹے نہیں تھے۔ انہوں نے ہمت مجتمع کی اور پھر ہر فارمیٹ میں دنیا کے بہترین باؤلر بن گئے۔

لیکن یہ بات ضرور ہے کہ اس کے بعد سے آج تک پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل تک پہنچنے کا اتنا قریبی موقع نہیں مل سکا۔ 2012ء میں سری لنکا کے ہاتھوں سیمی فائنل میں شکست ہوئی اور جب 2021ء میں فائنل-4 تک آیا تو ایک مرتبہ پھر آسٹریلیا سامنے کھڑا تھا۔ یہاں میتھیو ویڈ نے کام کر دکھایا اور شاہین آفریدی کو ویسے ہی چھکے لگائے جیسے کبھی مائیکل ہسی نے سعید اجمل کو لگائے تھے۔ پرانے زخم ایک مرتبہ پھر تازہ ہو گئے۔ اندازہ لگائیے کہ جنہوں نے اپنی زندگی میں 1999ء کے ورلڈ کپ فائنل اور پھر 2010ء اور 2021ء کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سیمی فائنل تینوں کے زخم کھا رکھے ہیں۔