[ریکارڈز] ایک ٹیسٹ میں سنچری اور 5 وکٹیں حاصل کرنے والے کھلاڑی

پاکستان کے خلاف میرپور، ڈھاکہ میں جاری دوسرے ٹیسٹ کے دوران بنگلہ دیش کے شکیب الحسن نے ایک انوکھا کارنامہ انجام دیا ہے۔ انہوں نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے کیریئر کی بہترین اننگز کھیلی اور 144 رنز بنائے اور بعد ازاں پاکستان کی اننگز میں 6 حریف بلے بازوں کو آؤٹ بھی کیا اور یوں ایک ہی ٹیسٹ مقابلے میں سنچری اور 5 یا زائد وکٹیں حاصل کرنے والے بنگلہ دیش کے پہلے اور تاریخ کے 21 ویں کھلاڑی بن گئے۔

کرکٹ کی تاریخ میں مجموعی طور پر 21 کھلاڑیوں نے 28 مرتبہ اتنی شاندار آل راؤنڈ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اپریل 1899ء میں انگلستان کے خلاف کیپ ٹاؤن ٹیسٹ میں جنوبی افریقہ کے جمی سنک لیئر نے تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ کارنامہ انجام دیا۔ مذکورہ مقابلے میں انہوں نے 106 رنز کی اننگز بھی کھیلی اور پہلی اننگز میں 6 اور مجموعی طور پر 9 وکٹیں بھی سمیٹیں لیکن ان کی یہ عظیم کارکردگی بھی جنوبی افریقہ کو فتح سے ہمکنار نہ کر سکی کیونکہ دوسری اننگز میں 246 رنز کے تعاقب میں جنوبی افریقہ کی پوری ٹیم محض 35 رنز پر آل آؤٹ ہو گئی تھی۔
بہرحال، آل راؤنڈ کارکردگی کا یہ عظیم ترین مظاہرہ سب سے زیادہ مرتبہ انگلستان کے مہان آل راؤنڈر این بوتھم نے دکھایا۔ انہوں نے کیریئر میں 5 مرتبہ ایک ہی مقابلے میں سنچری اور 5 وکٹوں کے ذریعے ٹیم کی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا۔ ان میں جون 1978ء میں پاکستان کے خلاف لارڈز ٹیسٹ کی شاندار کارکردگی بھی شامل ہے جس میں انہوں نے انگلستان کی کھیلی گئی واحد اننگز میں سب سے زیادہ یعنی 108 رنز بنائے اور بعد ازاں فالو آن کے شکار پاکستان کی دوسری اننگز میں 8 کھلاڑیوں کو آؤٹ کر کے انگلستان کو اننگز اور 120 رنز کی یادگار فتح سے نوازا۔ اس کے علاوہ فروری 1980ء میں بھارت کے ممبئی ٹیسٹ میں انہوں نے ایسی ہی کارکردگی دہرائی۔ پہلے 114 رنز بنا کر انگلستان کے ٹاپ اسکورر رہے اور پھر میزبان بھارت کے 7 کھلاڑیوں کو محض 48 پر ٹھکانے لگایا اور انگلستان کو 10 وکٹوں کی تاریخی فتح سے ہمکنار کیا۔
لیکن ان سب سے بڑھ کر این بوتھم کی سب سے یادگار کارکردگی جولائی 1981ء میں ایشیز سیریز کے ہیڈنگلے ٹیسٹ میں تھی۔ جہاں انگلستان آسٹریلیا کے 401 رنز کے جواب میں پہلی اننگز میں محض 174 پر ڈھیر ہو گیا تھا۔ اب فالو آن کا سامنا کرنے والے انگلستان اور بڑی مصیبت کا سامنا تھا کیونکہ اس کے ابتدائی 4 کھلاڑی محض 41 کے مجموعے تک پویلین لوٹ چکے تھے اور اننگز کی شکست واضح نظر آ رہی تھی۔ اس موقع پر این بوتھم نے 27 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 148 گیندوں پر 149 رنز کی وہ تاریخی و قائدانہ اننگز کھیلی جس نے نہ صرف میچ کا پانسہ ہی پلٹا بلکہ کرکٹ کے عالمی منظرنامے پر ایک عظیم آل راؤنڈر کی آمد کا عندیہ بھی دیا۔ انگلستان نے آسٹریلیا کو فتح کے لیے 130 رنز کا ہدف دیا اور پھر باب ولس کی تباہ کن گیند بازی کے سامنے آسٹریلیا محض 111 رنز پر ڈھیر ہو گیا اور انگلستان نے 18 رنز سے میچ جیت لیا۔ اس میچ کو کرکٹ کی دنیا کا 'The Great Escape' مانا جاتا ہے۔
پاکستان کی جانب سے سب سے پہلے مشتاق محمد نے ایک ہی میچ میں اننگز اور 5 وکٹیں حاصل کیں۔ وہ صرف ایک بار نہیں بلکہ دو بار اس کارِ نمایاں کو انجام دینے والے پاکستان کے واحد کھلاڑی بنے۔ ان کی کارکردگی اس لحاظ سے زیادہ منفرد ہے کہ انہوں نے ڈبل سنچری کے ساتھ پانچ وکٹیں حاصل کیں اور یوں اس فہرست کے دوسرے کھلاڑی ہیں جنہوں نے ڈبل سنچری کے ساتھ یہ کارنامہ انجام دیا۔ فروری 1973ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف ڈنیڈن ٹیسٹ میں مشتاق محمد نے پہلے 201 رنز بنائے اور پھر فالو آن کے بعد دوسری اننگز کھیلنے والے نیوزی لینڈ کے پانچ کھلاڑیوں کو بھی زیر کیا۔ یہ مقابلہ پاکستان نے اننگز اور 166 رنز سے جیتا تھا۔ دوسری مرتبہ انہوں نے اپریل 1977ء میں اُس وقت کیمشہور 'کالی آندھی' یعنی ویسٹ انڈیز کے خلاف زبردست کارکردگی جس کی بدولت پاکستان نے ٹرینیڈاڈ ٹیسٹ میں ایک یادگار کامیابی حاصل کی۔ مشتاق محمد پہلی اننگز میں 121 رنز کے ساتھ ٹاپ اسکورر رہے اور 341 کے جواب میں ویسٹ انڈیز کو 154 پر آل آؤٹ کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور پانچ وکٹیں حاصل کیں۔ بعد ازاں ویسٹ انڈیز 489 رنز کے ہمالیہ جیسے ہدف کے تعاقب میں 222 رنز پر ڈھیر ہو گیا اور پاکستان نے میچ 266 رنز کے بھاری مارجن سے جیتا۔
مشتاق محمد کے علاوہ عمران خان کی روایتی حریف بھارت کے خلاف فیصل آباد ٹیسٹ کی کارکردگی بھلا کون بھول سکتا ہے۔ یہ میچ پاکستان کی تاریخ کے بہترین مقابلوں میں سے ایک گردانا جاتا ہے جس میں پاکستان نے عمران خان اور دیگر کھلاڑیوں کی عمدہ کارکردگی کی بدولت با آسانی 10 وکٹوں سے فتح حاصل کی تھی۔ جنوری 1983ء میں کھیلے گئے اس مقابلے میں عمران خان نے پہلی اننگز میں بھارت کے 6 اور دوسری اننگز میں 5 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور پہلی اننگز میں 117 رنز بھی بنائے تھے۔
مشتاق محمد اور عمران خان کے علاوہ پاکستان کے عظیم آل راؤنڈر وسیم اکرم بھی ایک مرتبہ اپنی آل راؤنڈ مہارت کو ظاہر کر چکے ہیں جب انہوں نے 1990ء میں آسٹریلیا کے خلاف ایڈیلیڈ ٹیسٹ میں اس وقت سنچری داغ کر پاکستان کو میچ میں واپسی دی جب دوسری اننگز میں اس کی ابتدائی چار وکٹیں محض 22 رنز پر گر چکی تھیں۔ اس مقابلے میں چھٹی وکٹ پر عمران خان اور وسیم اکرم نے 191 رنز کی تاریخی شراکت داری قائم کی تھی جس کی بدولت پاکستان 387 رنز کا شاندار مجموعہ اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوا اور آسٹریلیا کو فتح کے لیے 304 رنز کا مشکل ہدف ملا جس کے جواب میں وہ 6 وکٹوں پر 233 رنز ہی بنا پایا اور میچ ڈرا ہو گیا۔
اس پوری فہرست میں تین کھلاڑی سب سے نمایاں ہیں۔ ایک تو مشتاق محمد جنہوں نے ڈبل سنچری کے ساتھ 5 وکٹیں حاصل کیں جبکہ دوسرے عمران خان اور این بوتھم جنہوں نے سنچری کے ساتھ میچ میں 10 وکٹیں حاصل کرنے جیسی فتح گر کارکردگی بھی دکھائی۔
پاکستان کے ان عظیم سپوتوں کے علاوہ تاریخ کے کچھ عظیم نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں جن میں ویسٹ انڈیز کے سر گیری سوبرز قابل ذکر ہیں جنہوں نے بھارت اور انگلستان کے خلاف ایک، ایک مرتبہ یہ شاندار کارکردگی دکھائی۔ دور جدید کے کھلاڑیوں میں ژاک کیلس اور روی چندر آشون اس فہرست میں شامل ہیں۔
آئیے مکمل فہرست ملاحظہ کرتے ہیں کہ کرکٹ کی تاریخ میں اب تک کتنے کھلاڑیوں نے ایک ہی ٹیسٹ میچ میں سنچری اور 5 یا زائد وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے:
ایک ٹیسٹ مقابلے میں سنچری اور 5 وکٹیں حاصل کرنے والے آل راؤنڈرز
نام | ملک | بیٹنگ (پہلی/دوسری اننگز) | وکٹیں | بمقابلہ | بمقام | بتاریخ |
---|---|---|---|---|---|---|
جمی سنک لیئر | ![]() |
106/4 | 9 | انگلستان | کیپ ٹاؤن | اپریل 1899ء |
آبرے فالکنر | ![]() |
78/123 | 8 | انگلستان | جوہانسبرگ | جنوری 1910ء |
چارلس کیلیوے | ![]() |
114/- | 5 | جنوبی افریقہ | مانچسٹر | مئی 1912ء |
جیک گریگری | ![]() |
100/- | 8 | انگلستان | ملبورن | دسمبر 1920ء |
ونو منکڈ | ![]() |
72/184 | 5 | انگلستان | لارڈز، لندن | جون 1952ء |
ڈینس آٹکنسن | ![]() |
219/20* | 7 | آسٹریلیا | برج ٹاؤن | مئی 1955ء |
کیتھ ملر | ![]() |
109/- | 8 | ویسٹ انڈیز | کنگسٹن | جون 1955ء |
رچی بینیوڈ | ![]() |
100/- | 9 | جنوبی افریقہ | جوہانسبرگ | فروری 1958ء |
کولی اسمتھ | ![]() |
100/- | 8 | بھارت | دہلی | فروری 1959ء |
پولی امریگر | ![]() |
56/172* | 5 | ویسٹ انڈیز | پورٹ آف اسپین | اپریل 1962ء |
گیری سوبرز | ![]() |
104/50 | 5 | بھارت | کنگسٹن | اپریل 1962ء |
بروس ٹیلر | ![]() |
105/0* | 5 | بھارت | کولکتہ | مارچ 1965ء |
گیری سوبرز | ![]() |
174/- | 8 | انگلستان | لیڈز | اگست 1966ء |
مشتاق محمد | ![]() |
201/- | 7 | نیوزی لینڈ | ڈنیڈن | فروری 1973ء |
ٹونی گریگ | ![]() |
148/25 | 6 | ویسٹ انڈیز | برج ٹاؤن | مارچ 1974ء |
مشتاق محمد | ![]() |
121/56 | 8 | ویسٹ انڈیز | پورٹ آف اسپین | اپریل 1977ء |
این بوتھم | ![]() |
103/30* | 8 | نیوزی لینڈ | کرائسٹ چرچ | فروری 1978ء |
این بوتھم | ![]() |
108/- | 8 | پاکستان | لارڈز، لندن | جون 1978ء |
این بوتھم | ![]() |
114/- | 13 | بھارت | ممبئی | فروری 1980ء |
این بوتھم | ![]() |
50/149* | 7 | آسٹریلیا | لیڈز | جولائی 1981ء |
عمران خان | ![]() |
117/- | 11 | بھارت | فیصل آباد | جنوری 1983ء |
این بوتھم | ![]() |
138/- | 6 | نیوزی لینڈ | ویلنگٹن | جنوری 1984ء |
وسیم اکرم | ![]() |
52/123 | 6 | آسٹریلیا | ایڈیلیڈ | جنوری 1990ء |
پال اسٹرینگ | ![]() |
106*/13* | 5 | پاکستان | شیخوپورہ | اکتوبر 1996ء |
ژاک کیلس | ![]() |
110/88* | 7 | ویسٹ انڈیز | کیپ ٹاؤن | جنوری 1999ء |
ژاک کیلس | ![]() |
139*/- | 7 | بنگلہ دیش | پوچفسٹروم | اکتوبر 2002ء |
روی چندر آشون | ![]() |
103/14 | 9 | ویسٹ انڈیز | ممبئی | نومبر 2011ء |
شکیب الحسن | ![]() |
144/6 | 6 | پاکستان | ڈھاکہ | دسمبر 2011ء |