عالمی کپ کے 30 جادوئی لمحات: بہت بے آبرو ہو کر
عالمی کپ 1996ء میں تینوں میزبان اعزاز کے مضبوط ترین امیدوار تھے۔ وسیم اکرم کی زیر قیادت پاکستان دفاعی چیمپئن بھی تھا اور بلاشبہ اپنی تاریخ کی بہترین ٹیموں کے ساتھ کھیل رہا تھا جبکہ بھارت کے امکانات بھی کافی زیادہ تھے۔ سری لنکا کو عالمی کپ سے پہلے تو سنجیدہ نہیں لیا جا رہا تھا لیکن جیسے ہی ٹورنامنٹ کا آغاز ہوا ان کی کارکردگی نے ثابت کردیا کہ وہ بھی اعزاز کی دوڑ میں پیش پیش ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان اور بھارت کوارٹر فائنل میں مدمقابل آ گئے۔ یوں کسی ایک کا سفر تمام ہونا تھا اور پاکستان بنگلور میں ایک مایوس کن شکست کے ساتھ عالمی کپ سے باہر ہوگیا اور اگلے ناک آؤٹ یعنی سیمی فائنل میں بھارت اور سری لنکا آمنے سامنے آ گئے۔
روایتی حریف پاکستان کو شکست دینے کے بعد بھارت کے حوصلے آسمان کو چھو رہے تھے اور ہندوستانی شائقین تو یقین کی اس حد تک پہنچ گئے تھے کہ ان کے خیال میں اب ٹورنامنٹ محض رسمی کارروائی ہے اور بھارت بہرصورت عالمی کپ اٹھائے گا۔ کولکتہ کے ایڈن گارڈنز میں جب پہلے ہی اوور میں سری لنکا کے دونوں خطرناک اوپنرز رمیش کالووتھارنا اور سنتھ جے سوریا آؤٹ ہوگئے تو ایسی خوش فہمیوں کو مزید تحریک ملی۔ میدان میں موجود لگ بھگ ایک لاکھ تماشائیوں نےآسمان سر پر اٹھا رکھا تھا، کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی جب جواگل سری ناتھ کی باؤلنگ کے سامنے صر ف35 رنز پر سری لنکاکے تین بلے باز آؤٹ ہو چکے تھے۔
اب ذمہ داری تجربہ کار اور ٹھنڈے مزاج کے مڈل آرڈر پر آن پڑی تھی۔ روشن مہاناما اور ارونڈا ڈی سلوا نے چوتھی وکٹ پر مجموعے میں 50 رنز کا اضافہ کیا، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا ہوگا کہ صرف ڈی سلوا نے رنز بنائے۔ ایک ایسے مرحلے پر جب سری لنکا کے تین سرفہرست بلے باز بالترتیب ایک، صفر اور ایک رن بنا کر واپس جا چکے تھے، ڈی سلوا نے صرف 47 گیندوں پر 14 چوکوں کی مدد سے 66 رنز بنا کر بھارت کی گرجتی ہوئی توپوں کا خاموش کیا۔ ان کے ہر ہر چوکے نے میدان میں موت کی خاموشی طاری کی اور اگر وہ انیل کمبلے کے ہاتھوں بولڈ نہ ہوتے تو ایک اور شاہکار اننگز کھیلتے لیکن مجموعے کے تہرے ہندسے میں داخل ہونے سے پہلے ہی وہ بھی میدان سے جا چکے تھے۔ ان کے جانے کے بعد کپتان ارجنا راناتنگا آئے اور مزید 83 رنز کا اضافہ کرکے سری لنکا کو محفوظ مقام پر پہنچا دیا۔ 38 ویں اوور میں جب سری لنکا کا اسکور 182 رنز تک پہنچ چکا تھا روشن مہاناما کے زخمی ہوکر میدان سے واپس آجانے سے سری لنکا کو خاصا دھچکا پہنچا لیکن ہشان تلکارتنے کے 32 اور آخری اوورز میں چمندا واس کے تیز رفتار 23 رنز نے اسے 251 رنز تک پہنچا دیا، جو ایک بہت بڑا مجموعہ نہ سہی لیکن کم از کم دفاع کرنے کے لیے کسی حد تک تو سری لنکا کی مدد کرسکتا تھا۔
اب ہدف کے تعاقب میں بھارت کی امیدوں کا مرکز و محور ہمیشہ کی طرح سچن تنڈولکر تھے۔ وہ کوارٹر فائنل کے ہیرو نووجوت سنگھ سدھو کے ساتھ کھیلنے آئے اور ان کی ناکامی کے باوجود بھارت کو ہدف کی سمت میں گامزن رکھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ آج وہ سری لنکا کی پیشرفت کا ہی خاتمہ کردیں گے کہ بدقسمتی آڑے آ گئی۔ بھارت صرف ایک وکٹ کے نقصان پر 98 رنز کے ساتھ بہترین مقام پر تھا کہ لیگ سائيڈ کی طرف جاتی سنتھ جے سوریا کی ایک گیند سچن کے تھائی پیڈ کے نچلے حصے سے لگی اور ٹپہ کھاتی ہوئی وکٹ کیپر رمیش کالووتھارنا کے ہاتھ لگ گئی۔ درحقیقت سچن کو یہ علم ہی نہیں تھا کہ گیند کس جگہ پر ہے۔ لاعلمی میں وہ ایک لمحے کے لیے کریز سے باہر نکلے اور اسی لمحے کا رمیش نے فائدہ اٹھاتے ہوئے بیلز اڑا دیں۔ سچن نے کوشش تو بہت کی لیکن ری پلے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ کریز سے باہر ہیں۔ بھارت کو تہرے ہندسے میں پہنچنے سے پہلے ہی اپنی سب سے قیمتی وکٹ کھونا پڑی۔
لیکن مقابلہ ابھی باقی تھا۔ کپتان اظہر الدین کے علاوہ گزشتہ مقابلوں میں پاکستان کے باؤلرز کے چھکے چھڑا دینے والے اجے جدیجا بھی باقی تھے اس لیے بھارتی شائقین کے لیے تشویش کی کوئی بات نہیں تھی۔ وہ مطمئن بھی تھے اور چند گھنٹوں بعد ممکنہ فتح کے انتظار میں بھی۔ لیکن یہ کیا؟ اظہر الدین صفر پر ہی آؤٹ ہوگئے۔ کمار دھرما سینا کی ایک گیند کو انہوں نے واپس باؤلر ہی کی جانب اچھال دیا اور بھارت 99 رنز پر تین وکٹیں کھو بیٹھا۔ دوسرے کنارے پر سست روی سے کھیلنے والے سنجے مانجریکر جے سوریا کی گیند کو سویپ کرنے کے چکر میں کلین بولڈ ہوئے تو بھارت کو پہلی بار حالات کے سنگینی کا احساس ہوا۔ جواگل سری ناتھ کو رنز کی رفتار بڑھانے کے لیے خاص طور پر اوپر بھیجا گیا لیکن ان کی اننگز صرف 6 رنز بنانے کے بعد رن آؤٹ کی نذر ہوئی۔
اب بھارت آخری مستند بلے بازوں کی جوڑی تک پہنچ گیا۔ ایک سرے پر ونود کامبلی تھے اور دوسرے پر اجے جدیجا۔ جس بلے باز نے وقار یونس کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا، جے سوریا کی گیند پر بری طرح کلین بولڈ ہوا۔ 115 رنز پر چھٹی وکٹ اور کچھ ہی دیر بعد نیان مونگیا اور آشیش کپور کی وکٹیں بھی گرگئیں۔ 98 رنز پر صرف ایک وکٹ کھونے والا بھارت 120 رنز تک پہنچتے پہنچتے اپنے 8 کھلاڑیوں سے محروم ہوچکا تھا یعنی کہ صرف 22 رنز پر 7 وکٹوں کا نقصان۔ وہ بھی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں۔
توقعات کا عظیم تاج محل یکدم ٹوٹ گیا اور اس کا پہلا احساس میدان میں موجود تماشائیوں کو ہوا۔ وہ آپے سے باہر ہوگئے۔ چند تماشائیوں نے غصے میں باؤنڈری لائنوں پر کھڑے سری لنکاکے فیلڈرز پر بوتلیں اور دیگر چیزیں پھینکنا شروع کردیں۔ کھیل روک دیا گیا۔ میدان میں زبردست ہنگامہ آرائی جاری تھی۔ چند اسٹینڈز میں ان پوسٹروں کو آگ لگائی جا رہی تھی، جو کچھ دیر قبل بھارت کی ممکنہ جیت کی داستان سنا رہے تھے۔ جب سچن تنڈولکر سمیت کئی کھلاڑیوں کے مقابلے کے بعد کچھ معاملات ٹھنڈے ہوئے تو کھیل دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کی گئی جو ایک بار پھر ناکام ہوئی کیونکہ سری لنکا کے باؤنڈری پر کھڑے فیلڈر محفوظ نہیں تھے۔ کافی سوچ بچار کے بعد بالآخر سری لنکا کو فاتح قرار دے دیا گیا۔
صرف چار سال قبل ایک کمزور ٹیم کی حیثیت سے 1992ء کا عالمی کپ کھیلنے والا سری لنکا اب عالمی کپ کے فائنل میں پہنچ چکا تھا اور بھارت کا سفر تمام ہوا۔ چند روز قبل جو حال پاکستان کا تھا، بھارت کے تماشائیوں کی حالت بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھی۔ وہی الزامات، وہی مظاہرے، وہی کھلاڑیوں کے پوسٹر اور پتلے نذر آتش اور وہی کرکٹ سے توبہ۔ دونوں پڑوسی مل کر بھی سری لنکا کو لاہور پہنچنے سے نہ روک سکے۔
لیکن ابھی دوسرے سیمی فائنل کا نتیجہ ابھی باقی تھا جہاں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز مدمقابل آئے۔ اس یادگار مقابلے کا احوال "جادوئی لمحات" کی اگلی قسط میں، تب تک آپ بھارت-لنکا تاریخی سیمی فائنل کی یاد تازہ کریں: