کون جیتے گا شارجہ ٹیسٹ؟

2 1,113

پاکستان اور انگلستان کے درمیان کھیلے گئے پہلے دونوں ٹیسٹ مقابلوں کے ابتدائی چار دن جتنے مایوس کن، یک طرفہ اور دلچسپی سے عاری تھے، آخری دن اتنے ہی جاندار اور دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ اگر ان دونوں ٹیسٹ کی روشنی میں کل سے شروع ہونے والے آخری و فیصلہ کن ٹیسٹ پر بات کی جائے تو یقیناً یہ مقابلہ اب بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے،جس میں انگلستان کو کم از کم فتح درکار ہے جبکہ پاکستان ڈرا کرنے میں بھی کامیاب ہوگیا تو نقصان نہیں۔

تو آئیے اس اہم مقابلے کے بارے میں کچھ تفصیل سے بات کرتے ہیں۔

اگر ابوظہبی کی وکٹ کی بات کی جائے تو بلاجھجک اسے ’’مُردار‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ جس میں نہ گیندبازوں کے لیے کوئی مدد تھی اور نہ ہی تماشائیوں کے لیے دلچسپی کا کوئی پہلو۔ مگر آخری روز جس طرح میچ نے کروٹ لی اور نتیجہ تقریباً انگلستان کے حق میں ہوگیا تھا۔ عین وقت پر خراب روشنی کی وجہ سے ختم نہ کیا جاتا تو سیریز اس وقت ایک-ایک سے برابر ہوتی۔

یہی کچھ دبئی میں ہوا۔ گرچہ وہاں کی وکٹ ابوظہبی کے مقابلے میں کافی بہتر تھی۔ گیندبازوں کے لیے امکانات بھی دکھائی دیے اور بلے بازوں کے لیے بھی لیکن تیسرے روز وہاب ریاض کا خطرناک اسپیل ہی مقابلے کا پلڑا کسی ایک جانب کرنے میں کامیاب ہوا۔ آخری روز عادل رشید کی مزاحمت یقیناً قابل تعریف تھی جس کی وجہ سے پاکستان باآسانی جیتتا ہوا مقابلہ بمشکل اس وقت جیتنے میں کامیاب ہوا جب صرف 6 اوورز اور چند گیندیں باقی رہ گئی تھیں۔

اب سب کی نظریں شارجہ پر ہیں کہ متحدہ عرب امارات میں کھیلنے کا وسیع تجربہ رکھنے والے پاکستان کے خلاف انگلستان کامیابی حاصل کرپائے گایا نہیں؟ یاد رہے کہ پاکستان نے امارات میں اب تک 20 ٹیسٹ کھیلے ہیں اور صرف 3 مقابلوں میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور یہ تینوں شکستیں شارجہ کے میدان پر ہی ہوئی ہیں۔ لیکن ٹیسٹ میں کامیابی کے بعد پاکستان کے حوصلے بلند ہیں اور پاکستان کے کھلاڑی پوری قوت کے ساتھ میدان میں اتریں گے تاکہ سیریز میں دو-صفر سے کامیابی حاصل کریں اور یوں بین الاقوامی ٹیسٹ درجہ بندی میں دوسرا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔

کہا جا رہا ہے کہ شارجہ میں ٹاس بہت اہمیت کا حامل ہوگا۔ جو ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کرے اور بڑا اسکور بنانے میں کامیاب ہوجائے، اس کی پوزیشن مضبوط تصور کی جائے گی۔ لیکن ایسا کرنے کے بعد بھی ٹیم کے پاس ایسے گیندباز ہونے چاہئیں جو مخالف کی 20 وکٹیں لینے کی صلاحیت و اہلیت رکھتے ہوں اور پاکستان کے پاس وہاب ریاض اور یاسر شاہ کی صورت میں یہ سہولت موجود ہے۔

ابتدائی دو مقابلوں میں 6 وکٹیں لینے والے عمران خان کے زخمی ہونے کے بعد پاکستان کو شارجہ میں کسی نئے گیندباز کو شامل کرنا ہوگا۔ پاکستان کے پاس اس وقت دو آپشن ہیں۔ یا تو وہ بائیں ہاتھ سے تیز گیندبازی کرنے والے راحت علی کو شامل کرلے یا پھر اسپنرز کے لیے ممکنہ طور پر سازگار وکٹ پر آل راؤنڈر بلال آصف کو ڈیبیو کا موقع دے، جن کا باؤلنگ ایکشن حال ہی میں کلیئر ہوا ہے۔ بہرحال اس کا فیصلہ ٹیم انتظامیہ نے کرنا ہے۔

مڈل آرڈر بلے بازی میں یونس خان اور مصباح الحق کو جس سہارے کی ضرورت تھی، وہ اب تیسرے ٹیسٹ میں اظہر علی کی صورت میں میسر ہوگا۔ چاہے تو دو مقابلوں کی چاروں اننگز میں جمی اینڈرسن کے ہاتھوں آؤٹ ہونے والے اوپنر شان مسعود کی جگہ اظہر علی کو شامل کرسکتاہے۔

جہاں تک دباؤ کی بات ہے توبلا شک و شبہ انگلستان آخری مقابلے میں زیادہ دباؤ میں ہوگا کیونکہ اس نے یہ مقابلہ لازمی جیتنا ہے۔ ڈرا کی صورت میں بھی سیریز پاکستان کے نام ہو جائے گی اس لیے پاکستان نسبتاً کم دباؤ کے ساتھ میدان میں اترے گا۔

اب سب سے بڑا سوال کہ کیا انگلستان یہ مقابلہ جیت سکتا ہے؟ اگر ہاں تو کیسے؟ تو مقابلہ جیتنے کے لیے سب سے پہلے اسے ٹاس جیتنے کی ضرورت ہوگی۔ اس طرح انگلستان کے بلے باز کم دباؤ میں زیادہ سے زیادہ رنز بنانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ پھر جیتنے کے لیے انہیں یونس خان اور مصباح الحق کو روکنا ہوگا۔ اس کے سوا انگلستان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا۔

انگلستان کی بیٹنگ لائن میں کپتان ایلسٹر کک اور جو روٹ کے سوا اب تک کوئی بلے باز رنز بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ کک نے سیریز میں 338 اور روٹ نے 277 رنز بنائے ہیں۔

بلے بازی کے علاوہ انگلستان کے لیے سب سے بڑا دردِ سر اسپن باؤلنگ کا شعبہ ہے۔ گرچہ دونوں ٹیسٹ مقابلوں میں ٹیم اسپنرز عادل رشید اور معین علی کے ساتھ میدان میں اتری ہے لیکن بحیثیت مجموعی دونوں خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ اس لیے انگلستان کو تیسرے ٹیسٹ کے لیے تبدیلی کرنی پڑے گی۔ مارک ووڈ پہلے ہی باہر ہو چکے ہیں اور امید ہے کہ ان کی جگہ لیام پلنکٹ، کرس جارڈن یا بائیں ہاتھ سے اسپن باؤلنگ کرنے والے سمیت پٹیل کھیل سکتے ہیں۔

انگلستان کے سابق کپتان مائیکل وان نے تیسرے ٹیسٹ کے لیے اپنی ٹیم بتائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آؤٹ آف فارم وکٹ کیپر جوس بٹلر کی جگہ یہ ذمہ داری جونی بیئرسٹو کو سونپی جا سکتی ہے۔ یوں جیمز ٹیلر کو موقع مل سکتا ہے جو اسپنرز کو کھیلنے کے ماہر ہیں۔

اب بات کرتے ہیں شارجہ کے میدان کی۔ سب سے زیادہ ون ڈے میچز کی میزبانی کرنے کا عالمی ریکارڈ رکھنے والے اس میدان پر اب تک 7 ٹیسٹ مقابلے کھیلے جا چکے ہیں لیکن مزیدار بات یہ ہے کہ پاکستان نے یہاں تین مقابلوں میں شکست کا مزا چکھا ہے۔

پاکستان کے ہیڈ کوچ وقار یونس شارجہ کی وکٹ کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہاں کی پچ سیدھی تصور کی جاتی ہے جس میں بلے بازوں کے لیے بہت کچھ ہے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ اسپن گیندبازوں کو مدد بھی ملتی ہے اور ریورس سوئنگ کا امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن سنا ہےکہ وکٹ کی مٹی کو تبدیل کیا گیا ہے، اس سے قطع نظر پاکستان نے حکمت عملی ترتیب دے دی ہے اور وہ اسی کے مطابق کھیلے گا۔

اب دیکھتے ہیں کہ دونوں ٹیموں کے پاس وہ کون کون سے کھلاڑی ہیں جو نتیجہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کے پاس اس وقت تین ایسے کھلاڑی ہیں جو انگلستان کے لیے مشکلات کھڑی کرسکتی ہیں۔ جی ہاں! یاسر شاہ، ذوالفقار بابر اور وہاب ریاض۔

انگلستان کے کیمپ پر نظر ڈالی جائے تو ایلسٹر کک، جو روٹ اور جمی اینڈرسن وہ کھلاڑی ہیں جو مہمان کو دورے میں پہلی کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔ مگر ان کھلاڑیوں میں معین علی کا بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ سیریز میں ابتدا سے ہی ناکام ثابت ہونے والے معین دبئی ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں ایک، ایک رنز بنا سکے لیکن ان میں میچ کا پانسہ پلٹنے کی پوری پوری صلاحیت ہے۔

تو دیکھنا یہ ہے کہ کس کے ہتھیار شارجہ میں کارآمد ثابت ہوں گے۔ نتیجہ چاہے کچھ بھی ہو لیکن مقابلے میں دلچسپی کا عنصر ضرور دیکھنے کو ملے گا۔

pak-eng-2015-test