والد کے نقش قدم پر چلنے والے کھلاڑی
اردو کا ایک محاورہ ہے 'مچھلی کے جائے کو تیرنا کون سکھائے' یعنی جو مچھلی کا بچہ ہے، وہ اپنے والدین کی وجہ سے پہلے ہی تیرنا جانتا ہے، اس کو تیرنا سکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کچھ یہی معاملہ چند مشہور کرکٹ کھلاڑیوں کے معاملے میں رہا ہے جنہوں نے خود کو کرکٹ کی خدمت کی ہی لیکن ان کا کوئی بیٹا بھی شہرت کی بلندیوں تک پہنچا۔ درحقیقت کسی بھی کھیل میں ملک کی نمائندگی کے اعزاز سے بڑا کوئی ایوارڈ نہیں ہے۔ ایک شخص جس نے اپنی جوانی میں یہ اعزاز حاصل کیا اور بڑھاپے میں اپنی بیٹے کو بھی ملک کے لیے کھیلتا دیکھے تو اس سے بڑی خوشی کوئی اور ہو نہیں سکتی۔
کرکٹ تاریخ میں متعدد ایسے کھلاڑی گزرے ہیں، جن کے بعد کسی بیٹے نے بھی میدان میں خوب نام کمایا۔ آئیے ایسے چند خاندانوں سے ملتے ہیں:
امرناتھ خاندان
جب لالا امرناتھ نے کرکٹ کا آغاز کیا ہوگا تو کیا ان کے سان گمان میں بھی ہوگا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب ان کی اولاد بھی ملک کی نمائندگی کرے گی۔ امرناتھ کےتین صاحبزادے تھے، لیکن ان میں سے مہندر امرناتھ ہی وہ خوش نصیب تھے، جنہیں اپنے والد کی طرح ملک کی جانب سے کھیلنے کا موقع ملا۔
لالا امرناتھ کا شمار اپنے دور کے بہترین کھلاڑیوں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے 24 مقابلے کھیلے اور 878 رنز کے ساتھ ساتھ 45 وکٹیں بھی حاصل کیں۔ گو کہ مہندر کو بھی اپنے والد کی طرح اپنی اولین سنچری کے لیے 8 سال کا انتظار کرنا پڑا لیکن ایک مرتبہ کھاتہ کھل جانے کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور اگلی 10 سنچریاں بہت ہی کم وقت میں بنائیں۔
1983ء کے عالمی کپ فائنل میں بھارت کی تاریخی کامیابی کے پیچھے مہندر امرناتھ کا بنیادی کردار تھا۔ انہوں نے نہ صرف 26 قیمتی رنز بنائے بلکہ 12 رنز کے عوض تین کھلاڑیوں کو آؤٹ بھی کیا تھا۔ اسی کارکردگی کی بدولت انہیں فائنل کا بہترین کھلاڑی منتخب کیا گیا۔
محمد خاندان
پاکستان کا محمد خاندان پوری دنیا میں مشہور ہے۔ اصل 'لٹل ماسٹر' حنیف محمد سے بھلا کون واقف نہیں ہوگا؟ جن کے پاس کرکٹ کی تاریخ کی طویل ترین اننگز کھیلنے کا ریکارڈ آج 58 سال بعد بھی موجود ہے۔ 55 ٹیسٹ، تقریباً 44 کا اوسط اور 3915 رنز، جن میں شامل رہیں 12 سنچریاں اور 15 نصف سنچریاں، یہ تھے حنیف محمد۔ ان کے بیٹے شعیب محمد اتنا نام تو نہیں کما سکے لیکن اوسط کے معاملے میں والد کو پیچھے ضرور چھوڑ گئے۔ شعیب نے کل 45 ٹیسٹ میچز میں ملک کی نمائندگی کی اور 44.34 کے اوسط سے 2705 رنز بنائے۔ ان کے ریکارڈ پر 7 سنچریاں اور 13 نصف سنچریاں رہیں، جن میں نیوزی لینڈ کے خلاف 203 رنز کی ناقابل شکست اننگز بھی شامل تھی۔
پولاک خاندان
پیٹر پولاک اور شان پولاک، جنوبی افریقہ کی تاریخ کے دو کامیاب ترین کھلاڑی، اور باپ بیٹا ہیں۔ دونوں اپنے اپنے دور میں بہترین گیندبازوں میں شمار ہوتے تھے۔
باپ یعنی پیٹر پولاک کا کیریئر مختصر مگر زبردست تھا۔ انہوں نے 28 مقابلے کھیلے اور 24.18 کے اوسط سے 116 وکٹیں لیں۔ اس میں نیوزی لینڈ کے خلاف اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں 38 رنز کے عوص حاصل کی گئی 6 وکٹیں بھی شامل تھیں۔
جبکہ برخوردار شان پولاک تو جنوبی افریقہ کی تاریخ کے کامیاب ترین گیندباز بنے۔ اپنے پورے بین الاقوامی کیریئر میں 829 وکٹیں لینے کے ساتھ ساتھ شان نے 7386 رنز بنا کر خود کو ایک بہترین آل راؤنڈر بھی ثابت کیا۔
کیرنز خاندان
آپ نے نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے کرس کیرنز کا نام تو بہت سنا ہوگا اور اُن کی آل راونڈ کاکردگی کے کئی مظاہرے بھی دیکھے ہوں گے۔ لیکن شاید آپ کو یہ معلوم ہو کہ کرس کیرنز کو یہ صلاحیتیں وراثت میں ملی تھیں۔ درحقیقت کرکٹ کے اِس سفر کا آغاز کرس کیرنز کے والد لانس کیرنز نے شروع کیا تھا۔ گو کہ وہ اِس قدر کامیاب نہ ہوسکے مگر پھر بھی اُنہوں نے اپنے دور میں ٹیم کے لیے بہت خدمات پیش کیں۔ لانس نے 11 سال تک نیوزی لینڈ کی نمائندگی کی اور 43 مقابلوں میں 130 کھلاڑیوں کو اپنا شکار بنایا۔ ان کی بہترین گیندبازی انگلستان کے خلاف ایک مقابلے میں رہی جہاں انہوں نے 74 رنز کے عوض 7 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ لانس کے کیریئر کا یادگار ترین لمحہ وہ تھا جب انہوں نے آسٹریلیا کے خلاف صرف 25 گیندوں پر 7 چھکوں کی مدد سے 53 رنز بنائے تھے اور نیوزی لینڈ کو کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
ان کے بعد کرس کیرنز نے بہت نام کمایا، اور بدنامی بھی۔ 62 ٹیسٹ میں 33.53 کے اوسط سے 3320 رنز کے لیے انہوں نے پانچ سنچریاں اور 22 نصف سنچریاں بنائیں اور 218 وکٹیں بھی حاصل کیں۔ 215 ایک روزہ میں ان کا بیٹنگ اوسط 29.46 اور رنز کی تعداد 4950 تھی۔ چار سنچریاں اور 26 نصف سنچریاں بنانے کے علاوہ انہوں نے 201 وکٹیں بھی سمیٹیں۔ لیکن آخر میں فکسنگ معاملات کھلنے کے بعد ان کی شہرت کو بہت ٹھیس پہنچی۔
براڈ خاندان
آج کل انگلستان کی گیندبازی کو سب سے مضبوط سہارا نوجوان اسٹورٹ براڈ کا ہے، جو اپنے والد کرس براڈ کا نام بھی روشن کر رہے ہیں جو ماضی میں انگلستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔
اگر کرس براڈ اوپنر کی حیثیت سے بلے بازی کرتے ہوئے حریف گیندبازوں سے نمٹتے تھے تو اسٹورٹ براڈ مخالف کے ابتدائی بلے بازوں کو سبق سکھاتے ہیں۔
کرس براڈ نے انگلستان کے لیے 25 مقابلے کھیلے اور 40 کے اوسط سے 1661 رنز بنائے۔ ان کے کیریئر کا یادگار ترین لمحہ 1986ء کی ایشیز میں لگاتار تین سنچریاں بنانا تھا، جس کی بدولت انہوں نے سیریز میں 487 رنز بنائے۔
اب اسٹورٹ براڈ ہیں، جو اب تک 90 ٹیسٹ مقابلے کھیل چکے ہیں اور 28.54 کے اوسط سے 330 وکٹیں اپنے نام کر چکے ہیں۔ بلے بازی میں بھی وہ 'اناڑی' نہیں۔ ٹیسٹ میں 23.25 کا عمدہ اوسط اور 2558 رنز رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ محدود طرز کی کرکٹ میں 242 وکٹیں بھی اسٹورٹ براڈ کے ریکارڈ پر ہیں۔