چیمپئن ٹیموں کے یادگار مقابلے
اگر آپ برصغیر میں رہتے ہیں تو آپ پاک-بھارت مقابلوں کا شدت سے انتظار کرتے ہوں گے لیکن اگر آپ کرکٹ کے 'اصلی تے وڈے' فین ہیں تو آپ جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے میچز کے لیے بے تاب ہوتے ہوں گے۔ ان مقابلوں کی ہر گیند اور ہر لمحہ اعصاب شکن ہوتا ہے اور پرستاروں کا جوش اور ولولہ دیدنی۔ 'کینگروز' اور 'پروٹیز' کے درمیان مقابلوں میں کامیابیوں کا جھکاؤ تو آسٹریلیا کے حق میں ہے لیکن جنوبی افریقہ اب حساب برابر کرنے والا ہے۔ دونوں کے درمیان جاری سیریز کے ابتدائی دونوں مقابلے جنوبی افریقہ نے باآسانی جیتے ہیں اور مہمان ٹیم کا تقریباً وہی حال کیا ہے جو اس وقت پاکستان ویسٹ انڈیز کا کر رہا ہے۔
آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے درمیان آج تک 93 میچز کھیلے گئے ہیں جن میں سے 47 آسٹریلیا نے جیتے جبکہ 42 میں جنوبی افریقہ کو کامیابی ملی ہے۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دونوں کتنی ٹکر کی ٹیمیں ہیں۔
پانچ ایک روزہ مقابلوں کی جاری سیریز کے یکطرفہ مقابلوں پر نہ جائیں۔ آسٹریلیا-جنوبی افریقہ کے درمیان تاریخ کے چند بہترین میچز کھیلے گئے ہیں جن میں سے چند کا مختصر احوال آپ کو بتاتے ہیں:
تاریخ کا بہترین ایک روزہ – نمبر 1
ایک روزہ کرکٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا اور جاندار مقابلہ اسی کو کہا جاتا ہے، جہاں آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ نے جوہانسبرگ میں مجموعی طور پر 827 رنز بنائے جو کسی بھی ون ڈے میں بننے والے سب سے زیادہ رنز ہیں۔ یہ بھی پانچ ایک روزہ مقابلوں کی سیریز تھی اور یہ آخری میچ تھا۔ ٹاس مہمان آسٹریلیا نے جیتا اور پہلے بلے بازی کی۔ ایڈم گلکرسٹ کے ساتھ رکی پونٹنگ پہلی بار میدان میں اوپنر اترے اور پھر جو گیندبازوں کی درگت بنی وہ ناقابل یقین تھی۔ گلکرسٹ نے 56، پونٹنگ نے 164، مائیکل ہسی نے 81 جارحانہ رنز بنائے اور آسٹریلیا ایک روزہ تاریخ کے سب سے بڑے مجموعے 434 رنز تک پہنچ گیا۔
کوئی اور ٹیم ہوتی تو ہمت ہار دیتی لیکن جنوبی افریقہ نے 435 رنز کے ہدف سے دبنے کے بجائے جیت کے لیے کمر کس لی۔ پہلے ہی اوور میں نقصان اٹھانے کے باوجود ہرشل گبس اور گریم اسمتھ کا عزم و حوصلہ برقرار تھا اور دونوں نے گیند بازوں سے خوب رنز بٹور۔ اسمتھ 90 رنز کی طوفانی اننگز کھیلنے کے بعد آؤٹ ہوئے۔ مگر گبس کی شعلہ فشاں اننگز جاری تھی۔ انہوں نے صرف 111 گیندوں پر 175 رنز بنائے۔ آخر میں مارک باؤچر اور ژاک کیلس کی شراکت داری نے ہدف کو آسان تو کردیا لیکن انتہائی سنسنی خیز مراحل سے گزرنی کے بعد جنوبی افریقہ صرف دو وکٹوں سے جیتا۔ باؤچر کا وہ فاتحانہ چوکا آج بھی یاد رکھا جاتا ہے۔
تاریخ کا بہترین ایک روزہ - نمبر 2
یہ عالمی کپ 1999ء کا سیمی فائنل تھا کہ جہاں جنوبی افریقہ کے ہاتھوں سے جیتی ہوئی بازی نکل گئی اور آسٹریلیا میچ ٹائی کرکے فائنل تک پہنچ گیا اور بعد میں ورلڈ چیمپئن بنا۔ یہی وہ مقابلہ تھا جس نے جنوبی افریقہ کے "چوکرز" کے داغ کو مزید گہرا کیا۔
مقابلے میں آسٹریلیا کا آغاز ہر گز متاثر کن نہیں تھا۔ شان پولاک اور ایلن ڈونلڈ کی گیندبازی کا مقابلہ کرنا آسٹریلیا کے بس کی بات نہیں تھی کہ جس کے 9 بیٹسمین ان دونوں باؤلرز کے ہاتھ لگے۔ کپتان اسٹیو واہ کے 56 اور "مرد بحران" مائیکل بیون کے 65 رنز کی بدولت آسٹریلیا کسی نہ کسی طرح 213 رنز تک تو پہنچ ہی گیا۔ لیکن جنوبی افریقہ کو 214 رنز کے معمولی ہدف تک پہنچنے سے روکنے کے لیے آسٹریلیا کو غیر معمولی کارکردگی کی ضرورت تھی۔ جنوبی افریقہ کو 48 رنز کا آغاز تو ملا لیکن گبس کے آؤٹ ہوتے ہی 65 رنز تک چار وکٹیں گر چکی تھیں۔ پھر جونٹی رہوڈز اور ژاک کیلس کی 84 رنز کی شراکت داری آئی جس نے جنوبی افریقہ کی ڈوبتی ہوئی امید کی کرن کو زندہ کیا۔ شان پولاک اور مارک باؤچر کی آخری اوورز میں بلے بازی نے جیت کو بائیں ہاتھ کا کھیل بنا دیا۔ لیکن وکٹیں گرنے سے معاملہ خراب تر ہوتا چلا گيا یہاں تک کہ آخری اوور میں 9 رنز درکار تھے اور صرف ایک وکٹ باقی تھی۔ لانس کلوزنر نے دوسری گیند پر ڈیمین فلیمنگ کو چوکا لگا کر ہدف کو آسان کردیا یہاں تک کہ تین گیندوں پر صرف ایک رن کی ضرورت تھی۔ یہاں ڈونلڈ نے زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی۔ وہ کلوزنر کی کال کو سمجھ نہ سکے، کلوزنر تو گیند بلّے سے لگتے ہی دوڑ پڑے لیکن ڈونلڈ گھبرا گئے اور یوں آخری وکٹ رن آؤٹ کی صورت میں گرگئی۔ مقابلہ تمام ہوا اور ساتھ ہی جنوبی افریقہ کا ورلڈ کپ کا سفر بھی۔ کیونکہ آسٹریلیا نے گروپ مرحلے میں جنوبی افریقہ کو شکست دی تھی اس لیے اسے فائنل کھیلنے کا موقع ملا جس کا اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ورلڈ کپ جیت لیا۔
برمنگھم کا بدلہ ملبورن میں
ورلڈ کپ 1999ء کے سیمی فائنل کی شکست ایسی تھی کہ جس کا بدلہ کسی صورت نہیں لیا جا سکتا لیکن پھر بھی جنوبی افریقہ نے کئی بار اس زخم پر مرہم رکھا ہے۔ جیسا کہ 2000ء میں ملبورن کے چھت والے ڈوک لینڈز اسٹیڈيم میں۔ یہ آسٹریلیا کے خلاف سیریز کا دوسرا مقابلہ تھا جس میں مہمان نے 227 رنز کے چھوٹے ہدف کے باوجود مقابلہ جاری رکھا اور آسٹریلیا کو جیتنے نہ دیا۔
آسٹریلیا کے گیند بازوں کی نپی تلی باؤلنگ کے ساتھ جنوبی افریقہ کے چار کھلاڑي صرف 95 پر آؤٹ ہو چکے تھے۔ مارک باؤچر اور جونٹی رہوڈز نے کچھ سنبھالا دیا پھر بھی صرف 226 رنز ہی بن سکے۔
آسان ہدف کے تعاقب میں آسٹریلیا کی پرواز بہت بلند تھی۔ 150 رنز تک صرف تین بلے باز آؤٹ ہوئے تھے۔ رکی پونٹنگ اور اینڈریو سائمنڈز کریز پر موجود تھے لیکن مقابلہ ریت کی طرح ہاتھ سے نکلتاچلا گیا یہاں تک کہ معاملہ آخری اوور میں 13 رنز تک پہنچ گیا جبکہ آسٹریلیا کی وکٹ بھی صرف ایک باقی تھی۔ اینڈریو ہال نے آسٹریلیا کو مقابلہ جیتنے نہیں دیا اور یہ میچ ٹائی ہوگیا۔
لمبی سیریز میں بڑی کامیابی
2002ء میں جب آسٹریلیا جنوبی افریقہ کے دورے پر پہنچا تو ایک روزہ مقابلوں کی سیریز 7 میچز پر مشتمل تھی۔ سخت مقابلوں کی توقع تھی لیکن یہ سیریز مکمل طور پر یکطرفہ ثابت ہوئی۔ ابتدائی پانچ میچز میں اس کی برتری چار-صفر تھی جب پورٹ ایلزبتھ کے سینٹ جارجز پارک میں چھٹا ایک روزہ کھیلا گیا۔ جنوبی افریقہ نے "عزت سادات" بچانے کے لیے بہت ہاتھ پیر مارے۔ گریم اسمتھ، ہرشل گبس، نکی بوئے، ژاک کیلس اور جونٹی رہوڈز کی مدد سے صرف تین وکٹوں پر 326 رنز تک پہنچ گیا۔ اسمتھ 84 رنز کے ساتھ نمایاں رہے جبکہ آخر میں کیلس اور رہوڈز کی 131 رنز کی شراکت داری نے بھی یہاں تک پہنچنا ممکن بنایا۔
لیکن ٹھیریے، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ جنوبی افریقہ میچ جیت گیا۔ آسٹریلیا نے اننگز کا آغاز ہی ایڈم گلکرسٹ کے چھکے کے ساتھ کیا جو ارادوں کو ظاہر کرنے کے لیے کافی تھا۔ پھر کینگروز کی دوڑ ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رکی۔ صرف تین وکٹوں کے نقصان پر آسٹریلیا نے آخری اوور میں ہدف حاصل کرلیا۔ اس فتح میں گلکرسٹ کی تیز ففٹی اور رکی پونٹنگ اور ڈیرن لیمین کی 183 رنز کی شراکت داری کا کردار نمایاں تھا۔
'جنگل میں منگل'
2014ء میں زمبابوے میں ایک سہ فریقی سیریز کھیلی گئی جہاں میزبان کے حریف کوئی اور نہیں یہ دونوں ورلڈ کلاس ٹیمیں تھیں۔ پہلے مقابلے میں میزبان کو 198 رنز سے شکست دینے کے بعد آسٹریلیا کی نظر دوسرے، اور بڑے افریقی شکار، یعنی جنوبی افریقہ پر تھیں۔
آسٹریلیا کے ابتدائی بلے بازوں آرون فنچ اور فلپ ہیوز نے بہترین آغاز دیا۔ ہیوز کے جانے کے بعد بھی فنچ کی جارحانہ بلے بازی چلتی رہی یہاں تک کہ انہوں نے سنچری مکمل کی۔ اسٹیون اسمتھ اور مچل جانسن کی وجہ سے آسٹریلیا 50 اوورز میں 327 رنز تک پہنچ گیا۔
ہدف کے تعاقب میں جنوبی افریقہ کو ہاشم آملا اور کوئنٹن ڈی کوک سے جلد محروم ہونا پڑا۔ اس مقام پر ڈی ولیئرز اور فف دو پلیسی نے شدید دباؤ کو خود پر حاوی نہ ہونے دیا۔ دونوں نے تیسری وکٹ پر 206 رنز کی ریکارڈ شراکت داری قائم کی۔ دو پلیسی سنچری بنانے میں کامیاب رہے جبکہ ڈی ولیئرز نے ژاں-پال دومنی کے ساتھ مل کر تین اوورز پہلے ہی ہدف کو حاصل کرلیا۔ آسٹریلیا کو 7 وکٹوں سے شکست ہوئی۔