جب جنوبی افریقہ پاکستان کے حواس پر طاری ہوگیا

0 1,834

مصباح الحق بلاشبہ اس وقت ٹیسٹ کرکٹ کے نمبر ایک کپتان ہیں۔ آسٹریلیا ہو یا انگلستان، سری لنکا ہو یا نیوزی لینڈ ان کی انفرادی کارکردگی بھی شاندار رہی ہے اور نتائج بھی زبردست۔ لیکن ایک ملک ایسا ہے جسے مصباح آج تک قابو نہیں کر سکے، وہ ہے جنوبی افریقہ! مصباح نے 'پروٹیز' کے خلاف 7 ٹیسٹ کھیلے ہیں اور صرف ایک میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس میں مصباح کے دور کی بدترین شکست، تین-صفر، بھی شامل ہے جو 2013ء کے دورۂ جنوبی افریقہ میں پاکستان کو ہوئی تھی۔ لیکن مسئلہ صرف مصباح کا نہیں ہے، جنوبی افریقہ کے خلاف پاکستان کی دال ہمیشہ کم ہی گلتی دکھائی دی ہے جیسا کہ 1997ء میں آج کے دن یعنی 27 اکتوبر کو ہوا۔

جنوبی افریقہ کا وہ دورۂ پاکستان پہلے دونوں مقابلوں کے غیر فیصلہ کن ہونے کی وجہ سے آخری ٹیسٹ تک گیا۔ 'بلے بازوں کی جنت' فیصل آباد میں تیسرا ٹیسٹ کھیلا گیا۔ جب جنوبی افریقہ نے ٹاس جیت کر بلے بازی کا فیصلہ تو وسیم اکرم اور وقار یونس کے سامنے حال سے بے حال ہوگیا، صرف 98 رنز پر اس کی 7 وکٹیں گرچکی تھیں۔ مڈل آرڈر کے چھ بلے باز دہرے ہندسے کے 'شرف' سے بھی محروم رہے۔

لیکن پھر وہی ہوا، جو پاکستان کی عادت ہے۔ ابتدائی وکٹیں حاصل کرنے کے بعد 'ٹھنڈے' پڑ گئے اور جنوبی افریقہ نے اوپنر گیری کرسٹن کی شاندار سنچری اور آٹھویں وکٹ پر پیٹ سمکوکس کے بہترین ساتھ کی بدولت مقابلے میں واپس 'انٹری' دی۔ دونوں کے درمیان 124 رنز کی شراکت ہوئی اور جنوبی افریقہ 239 رنز بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ گیری کرسٹن 100 رنز پر ناٹ آؤٹ رہے یعنی 'بیٹ کیری' کیا۔

پیٹ سمکوکس نے 94 گیندوں پر 81 رنز بنائے اور اس دوران دنیا کے خوش قسمت ترین بلے باز بھی بنے۔ مشتاق احمد کی ایک گگلی ان کو دھوکا دیتی ہوئی وکٹوں میں تو گئی لیکن آف اور مڈل اسٹمپ کے درمیان سے نکل گئی۔ یہ نجانے کس کی بے وقوفی تھی کہ دونوں اسٹمپس کے درمیان فاصلہ گیند کے سائز سے زیادہ ہوگیا۔ اس لیے گیند بغیر بیلز گرائے سیدھی نکل گئی اور یوں سمکوکس بچ گئے۔

اب ایلن ڈونلڈ اور شان پولاک کی باری تھی اور انہوں نے وہی کیا جو وسیم اور وقار ان کے ساتھ کرچکے تھے۔ 80 رنز پر پاکستان کی آدھی ٹیم میدان سے باہر تھی۔ لیکن انضمام الحق اور معین خان نے اننگز کو سنبھالا اور 144 رنز کی شراکت داری کے ذریعے جنوبی افریقہ کے بڑھتے قدموں کو روک لیا۔ بدقسمتی سے دونوں بلے باز سنچریاں مکمل نہ کر سکے۔ انضمام 96 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے جبکہ معین خان نے 80 رنز بنائے۔ آخر میں زخمی عامر سہیل کے 38 اور وقار یونس کے 34 رنز کی بدولت پاکستان نے 300 رنز کی نفسیاتی حد بھی عبور کرلی اور 308 رنز پر اننگز تمام کی۔

pat-symcox

69 رنز کے خسارے کے بعد جنوبی افریقہ کا سخت امتحان دوبارہ شروع ہوگیا۔ پرانی وکٹ پر پاکستانی اسپنرز ثقلین مشتاق اور مشتاق احمد خوب چلے اور جنوبی افریقہ کی دوسری اننگز 214 رنز پر تمام ہوئی۔ اگر سمکوکس ایک اور نصف سنچری نہ بناتے تو جنوبی افریقہ یہ رنز بھی نہ بنا پاتا۔ ان کی 55 رنز کی اننگز بعد میں پاکستان کے لیے کافی و شافی ثابت ہوئی کیونکہ پاکستان 146 رنز کے معمولی ہدف کے تعاقب میں بھی بری طرح لڑکھڑا گیا۔

عامر سہیل نے وہی کیا، جو ایک سال پہلے انہوں نے ورلڈ کپ کوارٹر فائنل میں وینکٹیش پرساد کے مقابلے میں کیا تھا۔ ایلن ڈونلڈ کو دو چوکے لگائے اور اس کے بعد بہت ناقص شاٹ کھیل کر آؤٹ ہوگئے۔ پھر جو سلسلہ شروع ہوا، اسے روکنے میں کوئي بلے باز کامیاب نہیں ہو سکا۔ شان پولاک کے سامنے میں ایک کے بعد پاکستانی بلے باز وکٹ دیتا چلا گیا جنہوں نے صرف 7 گیندوں میں میچ کا پانسہ پلٹ دیا کہ جس میں پاکستان کے مڈل آرڈر کی چار وکٹیں گریں۔ صرف 31 رنز پر پاکستان کے پانچ بلے باز آؤٹ ہوچکے تھے، جن میں عامر سہیل، سعید انور، اعجاز احمد اور انضمام الحق شامل تھے۔
پھر جنوبی افریقہ کو زیادہ دیر نہیں لگی۔ معین خان کی 32 رنز کی معمولی مزاحمت کسی کام کی نہیں تھی۔ صرف 94 رنز پر پاکستان کی پوری ٹیم آؤٹ ہوگئی اور وہ ایک معمولی ہدف کے تعاقب میں 53 رنز کے واضح مارجن سے ہار گیا۔ فیصل آباد میں موت کی سی خاموشی چھا گئی۔ جنوبی افریقہ نے نہ صرف مقابلہ بلکہ سیریز بھی جیت لی۔

یوں پاکستان نے جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز جیتنے کا سنہری موقع گنوایا۔ گو کہ 2003ء میں پاکستان نے پہلی، اور آخری، بار پروٹیز کے خلاف سیریز جیتی لیکن اب تک 10 میں سے صرف ایک موقع ایسا آیا ہے کہ پاکستان نے جنوبی افریقہ کو سیریز ہرائی ہے۔ چھ مرتبہ کامیابی نے حریف کے قدم چومے ہیں جو ظاہر کرتا ہے کہ جنوبی افریقہ پاکستان کے لیے کتنا سخت حریف ہے۔