پاکستان-نیوزی لینڈ: دو یادگار مقابلوں کی کہانی

0 2,190

پاکستان کا اگلا، اور نسبتاً بڑا امتحان بس شروع ہونے ہی والا ہے۔ 17 نومبر سے کرائسٹ چرچ کے میدان پر پاک-نیوزی لینڈ پہلا ٹیسٹ شروع ہوگا۔

دونوں ملکوں کی باہمی کرکٹ کی تاریخ 61 سال پرانی ہے اور اس کا آغاز اکتوبر 1955ء میں نیوزی لینڈ کے دورۂ پاکستان سے ہوتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے آٹھ سال بعد نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان آئی تھی اور پہلا میچ کراچی میں کھیلا گیا تھا۔ اس پہلے ہی میچ میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو ایک اننگز اور ایک رن سے شکست دی تھی۔ پاکستان کے آف بریک گیند باز ذوالفقار احمد نے پہلی اننگز میں پانچ اور دوسری اننگز میں چھ وکٹیں حاصل کرکے مخالف بیٹنگ لائن کے پرخچے اڑادیے تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم جب مارچ 1965ء میں دوسری بار پاکستان کے دورے پر آئی تو پاکستان نے ایک بار پھر اسے پہلے میچ میں ایک اننگز اور 64 رنز سے شکست دی۔

پاکستان کے کئی کرکٹ ماہرین اور شائقین کو خوف ہے کہ پاکستان کے لیے نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز جیتنا آسان نہیں ہوگا۔ پاکستان جیسی غیر متوقع ٹیم کے بارے میں یہ خوف کسی حد تک تسلیم کیا جاسکتا ہے، لیکن اعداد و شمار دیکھے جائیں تو پاکستان کو ہمیشہ نیوزی لینڈ پر برتری رہی ہے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان کُل 53 ٹیسٹ مقابلے کھیلے گئے ہیں جن میں 24 پاکستان کے نام رہے، جبکہ صرف آٹھ مقابلوں میں نیوزی لینڈ کو فتح نصیب ہوسکی۔ 21 ٹیسٹ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوئے۔ البتہ 10 سالوں میں بھی دونوں ٹیمیں جن آٹھ ٹیسٹ میں مدِ مقابل آئیں، ان میں پاکستان کو تین میں فتح اور دو میں شکست ہوئی۔

61 سال کے طویل دورانیے میں دونوں ٹیموں کے درمیان کئی دلچسپ اور یادگار مقابلے کھیلے گئے۔ ایسا ہی ایک مقابلہ مئی 2003ء میں قذافی اسٹیڈیم، لاہور پر کھیلا گیا۔ اس میچ میں نہ صرف پاکستانی بلے بازوں نے مار مار کر مہمان بالروں کا بھرکس نکال دیا، بلکہ گیند بازوں نے بھی کیوی بیٹسمینوں کو خوب رلایا۔ پاکستان نے ٹاس جیتا اور پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو اسے پہلا نقصان اننگز کی تیسری ہی گیند پر اٹھانا پڑ گیا۔ شاہد آفریدی بغیر کوئی رن بنائے چلتے بنے۔ 56 رنز کی شراکت کے بعد یونس خان بھی 27 رنز بناکر آؤٹ ہوگئے۔ لیکن پھر اوپنر عمران نذیر اور سیکنڈ ڈاؤن آنے والے انضمام الحق جم گئے اور 204 رنز کی شراکت قائم کی۔ عمران نے 127 رنز بنائے جبکہ انضمام نے اپنے ٹیسٹ کیریئر کی پہلی اور واحد ٹرپل سنچری اسکور کرتے ہوئے 329 رنز بنائے۔ 158 اوورز کھیلنے کے بعد جب میزبان ٹیم کے تمام کھلاڑی آؤٹ ہوئے تو مجموعی اسکور 643 رنز تھا۔

ایک طرف رنز کا انبار اور دوسری طرف ’راولپنڈی ایکسپریس‘ شعیب اختر کی طوفانی گیندیں، کیوی بلے بازوں گویا کانپ رہے تھے۔ صرف دو بلے بازوں کے علاوہ کوئی کھلاڑی دہرے ہندسے میں داخل نہ ہوسکا اور پوری ٹیم 73 رنز بناکر آؤٹ ہوگئی۔ شعیب اختر نے آٹھ اوورز میں 11 رنز دے کر 6 وکٹیں لیں۔ نیوزی لینڈ کو 570 رنز کے خسارے کا سامنا تھا۔ فالو آن ہوا اور اس نے اپنی دوسری باری شروع کی۔ البتہ اس بار اسے یہ سہولت ضرور حاصل تھی کہ شعیب اختر بالنگ نہیں کرواسکے۔ چنانچہ پاکستانی گیند بازوں کو وکٹیں لینے میں کچھ وقت ضرور لگا، مگر زیادہ نہیں۔ دوسری اننگز میں نیوزی لینڈ اپنا اسکور 246 تک لے جاسکا۔ دنیش کنیریا نے پانچ شکار کیے۔ یوں پاکستان کو ایک اننگز اور 324 رنز کے بھاری فرق کے ساتھ شاندار کامیابی حاصل ہوئی۔

یہ تو ذکر تھا پاکستانی سرزمین پر کھیلے گئے ایک مقابلے کا، جس میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو کچل کر رکھ دیا تھا لیکن دونوں ملکوں کی کرکٹ تاریخ ایک میچ کے ذکر کے بغیر ہمیشہ ادھوری رہے گی۔ 1992ء کا ورلڈکپ جیتنے کے دس ماہ بعد پاکستان ایک مرتبہ پھر نیوزی لینڈ تھا۔ یہ جنوری کا مہینہ تھا اور ہملٹن کے میدان پر سیریز کا واحد ٹیسٹ۔ میزبان نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے گیند بازی کا فیصلہ کیا اور پاکستان کو صرف 216 رنز تک محدود رکھا۔ جواب میں پہلی ہی وکٹ پر 108 رنز کی شراکت داری سے ایسا لگنے لگا کہ مقابلہ میزبان ٹیم کی جھولی میں آگرے گا، لیکن وقار یونس کی چار اور وسیم اکرم اور مشتاق احمد کی تین تین وکٹوں نے میزبان کو 264 رنز تک محدود کردیا۔

اب بلے بازوں کا امتحان تھا، لیکن وہ ایک بار پھر بری طرح ناکام ہوئے اور اس بار صرف 174 رنز پر پوری ٹیم پویلین لوٹ گئی۔ پہلی اننگز میں تین وکٹیں لینے والے ڈینی موریسن نے دوسری اننگز میں پانچ کھلاڑی آؤٹ کیے۔ اب نیوزی لینڈ کے پاس صرف 127 رنز کا ہدف تھا، دس وکٹیں تھیں، اور دو دن تھے، لیکن پاکستان کے پاس دو ’’ڈبلیوز‘‘ تھے: وسیم اکرم اور وقار یونس۔ وسیم اکرم نے 45 اور وقار یونس نے 22 رنز دے کر پانچ، پانچ شکار کیے یعنی دونوں نے آدھی آدھی ٹیم کو ٹھکانے لگادیا۔ میزبان ٹیم کی بازی صرف 93 رنز پر لپیٹ دی گئی اور پاکستان 33 رنز سے کامیاب ہوگیا۔

کیا اس دورۂ نیوزی لینڈ میں بھی ہمیں ایسا ہی کوئی سنسنی خیز اور یادگار میچ دیکھنے کو مل سکے گا؟ کیا کہتے ہیں؟

waqar-younis-wasim-akram