دفاعی چیمپیئن پشاور زلمی ایک مرتبہ پھر فائنل میں
پاکستان سپر لیگ 3 کے آخری پلے-آف میں پشاور زلمی نے کامران اکمل کی ایک اور جارحانہ اننگز کی بدولت کراچی کو 13 رنز سے شکست دے دی اور یوں مسلسل دوسری بار فائنل تک رسائی حاصل کرلی۔ کراچی اور پشاور کے اس مقابلے میں اصل فرق اکمل کی اننگز تھی، جس کا کنگز کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ شاہد آفریدی ہوتے تو شاید مقابلے کا منظرنامہ کچھ اور ہوتا لیکن وہ گھٹنے کی تکلیف کی وجہ سے اس مقابلے میں نہیں کھیلے اور یوں کراچی سیزن میں اپنے چوتھے کپتان، محمد عامر، کے ساتھ میدان میں اترا اور ابتداء سے لے کر آخر تک مقابلے کی دوڑ میں پیچھے ہی رہا۔ بارش سے متاثرہ میچ کو 16 اوورز کی اننگز تک محدود کیا گیا جس کے بعد آسمان تو نہیں برسا، لیکن چوکوں اور چھکوں کی بارش خوب ہوئی۔ پشاور زلمی نے کامران اکمل کی 17 گیندوں پر بنائی گئی نصف سنچری کی بدولت 170 رنز جمع کیے اور جواب میں کراچی نے وکٹیں تو نہيں دیں، لیکن صرف 157 ہی بنا پایا اور 13 رنز کے واضح فرق سے اپنے شہر یعنی کراچی میں فائنل کھیلنے کا موقع ضائع کردیا۔
ٹاس کراچی کنگز کے قائم مقام کپتان محمد عامر نے جیتا اور پہلے گیند بازی کا فیصلہ کیا۔ شاید یہی وہ فیصلہ تھا جو میچ کے نتیجے پر کافی اثر انداز ہوا کیونکہ ابتدائی چند اوورز میں حالات سمجھنے کے بعد کامران اکمل اور آندرے فلیچر نے کراچی کے فیصلے کو بھیانک بنا دیا۔ ان کے ہاتھوں ہر اوور میں کراچی کے گیند بازوں کی درگت بنی، بالخصوص پانچویں اوور میں جب کامران اکمل نے عثمان شنواری کو دو چھکے اور تین چوکے لگا کر 25 رنز سمیٹے اور یوں پانچ اوورز میں ہی اسکور کو 57 تک پہنچا دیا۔ اس کے بعد جب تک کامی کھڑے رہے، پشاور کی اننگز کی رفتار بڑھتی ہی رہی، یہاں تک کہ پہلی وکٹ پر صرف 9 اوورز میں 107 رنز بن چکے تھے۔ تب کہیں جاکر کراچی کو پہلی وکٹ ملی۔ فلیچر 34 رنز بنا کر عین باؤنڈری لائن پر کیچ دے گئے۔ اسی اوور میں کامران اکمل بھی ایک غیر معیاری شاٹ کھیلتے ہوئے کیچ آؤٹ ہوگئے۔ 27 گیندوں پر 8 چھکے اور 5 چوکے، کل ملا کر 77 رنز، یہ تھی کامران اکمل کی وہ اننگز جس نے پلڑا مکمل طور پر پشاور کے حق میں جھکا دیا۔ اس اننگز کے دوران کامران اکمل نے اپنے 50 رنز صرف 17 گیندوں پر مکمل کیے یعنی سیزن کی تیز ترین نصف سنچری بنائی۔ بعد ازاں کراچی کے باؤلرز نے رنز کی رفتار کو روکنے میں کچھ کامیابی تو حاصل کی لیکن پشاور پھر بھی 7 وکٹوں پر 170 رنز بنانے میں کامیاب ہوگیا۔
حقیقت یہ ہے کہ 171 رنز کے ہدف کے تعاقب میں کراچی کنگز نے بھی اچھا مقابلہ کیا، بس کمی رہی کامران اکمل جیسی ایک اننگز کی۔ مختار احمد تو پہلے مقابلے میں ہی متاثر نہیں کر سکے اور صرف ایک رن بنا کر آؤٹ ہوگئے لیکن جو ڈینلی اور بابر اعظم نے بہت ذمہ دارانہ اننگز کھیلیں۔ دونوں نے اپنی نصف سنچریاں مکمل کیں۔ بابر اعظم 63 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے، انہوں نے 45 گیندیں کھیلیں۔ ڈینلی آخر تک ڈٹے رہے، بس منزل تک نہیں پہنچ پائے۔ انہوں نے 46 گیندوں پر 79 رنز اسکور کیے۔
اگر مقابلہ 20اوورز سے گھٹ جائے اور 16 اوورز تک محدود ہو جائے تو ہاتھ میں وکٹیں بچانے کی کوئی اہمیت نہيں ہوتی۔ ہر اوور میں دو باؤنڈریز نہ ہوں تو پھر بڑے ہدف کا حصول ناممکن ہو جاتا ہے اور یہی کراچی کنگز کے ساتھ ہوا۔ کاش کراچی کے پاس کوئی انور علی ہوتا تو شاید آخری اوور میں درکار 27 رنز کے قریب پہنچ جاتا لیکن وہاب ریاض نے 13 رنز ہی دیے اور یوں کراچی کے سفر کا خاتمہ کردیا۔
پشاور زلمی کی اب تک کی کارکردگی کو معجزانہ کہنا چاہیے۔ کہاں یہ عالم تھا کہ وہ پلے-آف تک پہنچنے کے لیے بھی پریشان تھا اور آخری دونوں میچز جیت کر بمشکل اگلے مرحلے میں پہنچا۔ لیکن کوئٹہ اور کراچی کے خلاف یہاں دو شاندار کامیابیاں حاصل کرکے ثابت کیا ہے کہ اگر کوئی اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف فائنل کھیلنے کا حقدار ہے تو وہ پشاور ہے۔
اس مقابلے میں کامران اکمل کو میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز ملا اور ایک مرتبہ پھر وہ سیزن میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمین بن گئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اتوار کو فائنل میں جب کامی اور رونکی آمنے سامنے آئيں گے تو بازی کس کے نام رہے گی۔ سب کی نظریں اب کراچی پر!