ملتان پھر فائنل میں، لاہور تکتا ہی رہ گیا

ملتان نے 164 رنز کے ہدف کا کامیابی سے دفاع کیا، مسلسل دوسرا فائنل کھیلے گآ

0 953

لاہور کو پاکستان سپر لیگ 2022ء کے فائنل تک پہنچنے کے لیے آخری 7 اوورز میں 65 رنز کی ضرورت تھی اور کریز پر فخر زمان اور اس سیزن کی چند سنچریوں میں سے ایک بنانے والے ہیری بروک موجود تھے۔ فخر صرف موجود ہی نہیں تھے بلکہ ملتان سلطانز کے چھکے چھڑا رہے تھے۔ گزشتہ دو اوورز میں انہوں نے عمران طاہر اور خوشدل شاہ کو چار چھکے بھی رسید کیے تھے اور لگتا تھا کہ اب لاہور کو کوئی نہیں روک سکتا۔

اس موقع پر اسٹریٹجک ٹائم آؤٹ ہوا، ایک وقفہ جو ٹیموں کو اپنی حکمتِ عملی پر از سرِ نو غور کرنے اور میچ کے حتمی مرحلے میں فیصلہ کُن وار کرنے کی تیاری کا موقع دیتا ہے۔ اس وقفے کے بعد جو ہوا، وہ لاہور قلندر کے کسی پرستار سے مت پوچھیے گا کیونکہ اگلے چند اوورز میں ہی بازی مکمل طور پر پلٹ چکی تھی، یہاں تک کہ ملتان 28 رنز سے کامیاب ہو کر مسلسل دوسری مرتبہ پاکستان سپر لیگ کے فائنل تک پہنچ گیا۔

یہ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں ایک اور 'فُل ہاؤس' تھا، جس کے سامنے لاہور کے کپتان شاہین آفریدی نے ٹاس جیتا اور پہلے باؤلنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ تب تک تو ٹھیک لگ رہا تھا جب ملتان 7 اوورز میں 51 رنز پر دو وکٹوں سے محروم ہو چکا تھا۔ لیکن لاہوری باؤلرز کو ابھی حقیقی خطرے کا اندازہ نہیں تھا۔

محمد رضوان اور رائلی روسو نے باقی کے 13 اوورز لاہوری باؤلرز کو وکٹ کے لیے بھی ترسا کر رکھا۔ بلاشبہ ان کے کھیلنے کی رفتار سست تھی، جیسا کہ اگلے پانچ اوورز میں صرف ایک چوکا لگا۔ لیکن آہستہ آہستہ اسکور کو 163 رنز تک لے جانے میں ضرور کامیاب ہو گئے۔ دونوں بلے بازوں نے تیسری وکٹ پر 113 رنز کی ناقابل شکست ساجھے داری کی۔ رضوان نے 51 گیندوں پر 53 رنز کی باری کھیلی جو بظاہر ایک سُست اننگز لگتی ہے لیکن میچ کا نتیجہ دیکھیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اُس وقت ایسی ہی اننگز کی ضرورت تھی کیونکہ یہ وکٹ بیٹنگ کے لیے آسان نہیں تھی۔

ملتان سلطان کے 150 کی نفسیاتی حد پار کرنے میں اہم کردار رائلی روسو کا بھی تھا۔ انہوں نے 42 گیندوں پر 7 چوکوں اور ملتانی اننگز کے واحد چھکے کی مدد سے ناٹ آؤٹ 65 رنز بنائے۔

لاہور قلندرز گو کہ اپنے پیس اٹیک کی وجہ سے مشہور ہیں لیکن آج عمدہ باؤلنگ اسپنرز نے کی۔ جیسا کہ محمد حفیظ، جنہوں نے اپنے چار اوورز میں صرف 16 رنز دیے اور ایک وکٹ بھی لی۔ اسی طرح ملتان کی دوسری وکٹ سمیت پٹیل کو ملی، جنہوں نے 4 اوورز میں 31 رنز دیے۔

یوں پہلی اننگز میں ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ اسپنرز کا کردار بہت اہم ہوگا۔ اس لیے ملتان نے عمران طاہر، خوشدل شاہ اور آصف آفریدی کو تیار کرنا شروع کر دیا بلکہ پہلا اوور ہی آصف کو پکڑا دیا، جنہوں نے ملتان کو پہلی کامیابی بھی دلائی۔

لاہور کے رنز بنانے کی سست رفتار ظاہر کر رہی تھی کہ وکٹ واقعی کھیلنے کے لیے آسان نہیں۔ پاور پلے میں صرف 38 رنز، وہ بھی فخر زمان کی موجودگی میں؟ جیسے ہی کم رنز کا دباؤ پڑا، یکے بعد دیگرے دو وکٹیں مزید گر گئیں۔ پہلے کامران غلام رن آؤٹ ہوئے اور پھر محمد حفیظ دن کا سب سے بھیانک شاٹ کھیلتے ہوئے۔ وہ خوشدل شاہ کی ایک گیند کو آگے بڑھ کر کھیلتے ہوئے لمحے بھر کے لیے چُوکے اور باقی کا کام وکٹوں کے پیچھے کھڑے محمد رضوان نے پورا کر دیا۔

اس کے باوجود لاہوریوں کے لیے امید کی کرن فخر زمان کریز پر موجود تھے اور واقعی پی ایس ایل 7 گواہ ہے کہ جب تک فخر کریز پر موجود ہوں، لاہور کو ہرانا مشکل ہوتا ہے۔

جب اسپنرز میچ پر چھائے ہوئے تھے تب فخر نے اسپن ہی کے خلاف دھاوا بول دیا۔ عمران طاہر کو لگاتار تین چھکے رسید کیے تو میدان میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ لیکن یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی کیونکہ ملتان نے اسپنرز ہٹا کر فوراً شاہنواز ڈاہانی کو میدان میں اتار دیا، جنہوں نے تب تک کوئی اوور نہیں پھینکا تھا۔ اور انہوں نے آتے ہی ہیری بروک کو آؤٹ بھی کر دیا۔ پھر اگلے اوور میں ڈیوڈ ولی نے دن کی سب سے بڑی وکٹ حاصل کر لی، یعنی فخر زمان کی۔ جو 45 گیندوں پر 63 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہو گئے۔ یہ دونوں بلے باز ایل بی ڈبلیو ہوئے اور ساتھ ہی لاہور کی جیتنے کی امیدیں مدھم پڑ گئیں۔

ملتان نے مسلسل چھ اوورز میں لاہوری بلے بازوں کی کوئی نہ کوئی وکٹ لی۔ فل سالٹ، سمت پٹیل، شاہین آفریدی اور 19 ویں اوور میں ڈیوڈ ویزے، جو سب میچ کا پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ڈاہانی اینڈ کمپنی کے سامنے اُن کی ایک نہ چلی۔ یہاں تک کہ لاہور کی اننگز مقررہ 20 اوورز میں 135 رنز تک ہی پہنچ پائی۔

اِس کامیابی کے ساتھ ملتان سلطانز نے مسلسل دوسری بار فائنل تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ 2021ء میں انہوں نے فائنل میں پشاور زلمی کو 47 رنز کی بڑی شکست دی تھی اور اپنا پہلا ٹائٹل حاصل کیا تھا۔ جبکہ اِس سال تو انہوں نے کہیں زیادہ بھرپور کارکردگی دکھائی ہے۔ سلطانز نے پی ایس ایل 7 کے لیگ مرحلے کے 10 میں سے 9 میچز میں کامیابی حاصل کی اور جو ایک میچ ہارا، وہ بھی لاہور قلندرز ہی کے خلاف تھا۔ یعنی ملتان نے اُس شکست کا بدلہ ایک کہیں بڑے اور اہم مقابلے میں لیا ہے۔

اب لاہور کو فائنل تک پہنچنے کے لیے طویل راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ وہ ایلیمنیٹر 1 میں پشاور زلمی اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے مقابلے کے فاتح سے ایلیمنیٹر 2 میں کھیلے گا، جہاں دونوں کے لیے جیتنا ضروری ہوگا۔ ایلیمنیٹر 2 کا فاتح 27 فروری کو قذافی اسٹیڈیم میں ملتان کے ساتھ کھیلے گا۔

ویسے میزبان لاہور کی تو دلی خواہش ہوگی کہ لاہور ایک مرتبہ پھر فائنل کھیلے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر کرکٹ شائق کی بھی یہی آرزو ہے کیونکہ لاہور وہ واحد ٹیم ہے جس نے پی ایس ایل تاریخ میں آج تک کبھی پی ایس ایل ٹرافی ہاتھ میں نہیں اٹھائی۔ اسلام آباد دو مرتبہ اور پشاور، کوئٹہ، کراچی اور ملتان نے ایک، ایک بار چیمپیئن بن چکے ہیں لیکن لاہور آج تک اس اعزاز سے محروم ہی رہا ہے۔