پاکستان کرکٹ کے لیے سیاہ دن ہے: سابق کرکٹرز، عہدیداران

1 1,019

پاکستان کے سابق کھلاڑیوں اور بورڈ عہدیداران نے اسپاٹ فکسنگ کے مقدمے میں پاکستان کے تین کھلاڑیوں کو مجرم قرار دیے جانے پر پاکستان کرکٹ کے لیے ایک سیاہ دن قرار دیا ہے۔

سابق کپتان سلمان بٹ، تیز گیند بازوں محمد آصف اور محمد عامر کو برطانیہ کی عدالت نے منگل کو بدعنوانی کے ذریعے رقوم حاصل کرنے اور دھوکہ دہی کے مقدمے میں مجرم قرار دیا۔ جس کے بعد سے اب تک پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے باضابطہ طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا البتہ سابق کرکٹرز اور عہدیدار اس معاملے پر بہت افسردہ دکھائی دیتے ہیں۔

کھلاڑیوں کو مجرم قرار دیے جانے کے فیصلے کے بعد بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے چیف ایگزیکٹو ہارون لورگاٹ نے کہا ہے کہ برطانیہ کی عدالت کا فیصلہ ہمارے مقررہ کردہ انسداد بدعنوانی ٹریبونل کے فیصلے کی تائید کرتا ہے جس نے رواں سال کے اوائل میں پاکستان کے ان تینوں کھلاڑیوں پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ تاہم انہوں نے اس امر کی وضاحت کی کہ برطانوی عدالت کی جانب سے سزاؤں کا جو بھی فیصلہ سامنے آئے، وہ ان تینوں کھلاڑیوں کو آئی سی سی کی جانب سے دی گئی سزا پر اثر انداز نہیں ہوگا اور ان پر کم از کم 5،5 سال کی پابندی بدستور برقرار رہے گی۔

سلمان بٹ پہلے ہی بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی 10 سال کی پابندی بھگت رہے ہیں، اب انہیں 9 سال قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے (تصویر: AP)
سلمان بٹ پہلے ہی بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی 10 سال کی پابندی بھگت رہے ہیں، اب انہیں 9 سال قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے (تصویر: AP)

انہوں نے کہا کہ میں ایک مرتبہ پھر دہراؤں گا جیسا کہ پہلے بھی کئی مواقع پر اس کا اظہار کر چکا ہوں کہ آئی سی سی بدعنوانی کو ہر گز برداشت نہیں کرے گی اور کسی بھی ایسی سرگرمی کا قلع قمع کرنے کے لیے اپنے دائرۂ اختیار میں ہر ممکن کوشش کرے گی۔

پاکستان میں اس فیصلے کے بعد ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیف ایگزیکٹو عارف علی خان عباسی کا کہنا ہے کہ تینوں کرکٹرز نے جو کیا، انہیں اس کی سزا ملنی چاہیے تھی لیکن اگر اس وقت پاکستان کرکٹ کی انتظامیہ معاملے کو درست انداز میں اپنے ہاتھوں میں لیتی تو آج پاکستان کی اتنی بدنامی نہ ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ ان تینوں کھلاڑیوں پر تاحیات پابندی لگنی چاہیے۔

بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے سابق سربراہ احسان مانی کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے پیغام ہے کہ وہ اپنے کھلاڑیوں کے لیے انسداد بدعنوانی کے پروگرام کو موثر بنانے میں ناکام رہا اور مجھے امید ہے کہ یہ واقعہ ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہوگا اور وہ ایسے اقدامات اٹھائیں گے کہ ایسے واقعات دوبارہ پیش نہ آئیں۔ انہوں نے کہا کہ مقدمے کے دوران چند اور کھلاڑیوں کے نام بھی سامنے آئے اور مجھے توقع ہے کہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل اس پر سنجیدگی سے نظر دوڑائے گی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق سربراہ شہریار خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آپ اپنے اردگرد صرف بدعنوانی دیکھتےہیں، لوگ چاہتے ہیں کہ وہ راتوں رات امیر ہو جاں اور بدقسمتی سے اس ماحول میں پلنے بڑھنے والے کھلاڑی اسی رحجان کے حامل نکلے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ٹیم انتظامیہ نے معاملے کو بہت گھٹیا انداز میں برتا۔ انہوں نے کھلاڑیوں کو بالکل تنہا چھوڑ دیا اور یہ سمجھ لیا کہ انہوں نے کچھ غلط ہی کیا ہوگا، لیکن اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے انہیں اس سے نکالا جا سکتا تھا۔

ماضی کے عظیم بلے باز اور پاکستان کے سابق کپتان ظہیر عباس کا کہنا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ انصاف کا تقاضا ہے کہ اگر آپ نے کچھ غلط کیا ہے تو آپ کو اس کی سزا بھگتنا پڑے گی اس لیے افسوس کے ساتھ ساتھ ایک لحاظ سے یہ پاکستان اور بین الاقوامی کرکٹ کے لیے بہتر بھی ہے اورنئے کھلاڑیوں کے لیے عبرت کی مثال بھی۔

سابق وکٹ کیپر بلے باز سلیم یوسف کا کہنا ہے کہ تینوں کھلاڑیوں نے پاکستان کرکٹ کا سر جھکا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو ان کھلاڑیوں کے لیے الگ سزا کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ آئندہ کوئی ایسی حرکت نہ کرے۔

سابق چیف سلیکٹر اقبال قاسم نے کہا ہے کہ برطانوی عدالت کا یہ فیصلہ غیر یقینی نہیں تھا، کھلاڑیوں نے خود کو بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں ناکام رہے۔ انہوں نے کہا کہ بحیثیت مجموعی یہ کرکٹ کے لیے ایک برا دن تھا اور ہو سکتا ہے کہ ملک کو مزید بدنامی کا سامنا کرنا پڑے۔

ماضی کے ایک اور پاکستانی قائد عامر سہیل کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں گزشتہ سال یہ معاملہ منظرعام پر آنے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کو متحرک کردار ادا کرنا چاہیے تھا اور کھلاڑیوں کو فوری طور پر پاکستان واپس بلا کر ان کے خلاف اپنے ضابطہ اخلاق کے تحت کارروائی کرنی چاہیے تھے۔ یہ معاملہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے حوالے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یہ پاکستان کرکٹ کے لیے ایک شرمناک دن تھا لیکن اگر آپ بدعنوانی کے خلاف فوری طور پر ردعمل نہیں دکھائیں گے تو یہی ہونا تھا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے ایک اور سابق سربراہ خالد محمود کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ عالمی کرکٹ کے لیے بہترین مثال ہے کیونکہ ماضی میں بدعنوانی میں ملوث پائے گئے کھلاڑیوں کو معمولی جرمانے کے بعد چھوڑا گیا۔ اب جبکہ معاملہ باقاعدہ قانون کے ہاتھ میں آیا تو ان بدعنوان کھلاڑیوں کو ویسی ہی سزا کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کے وہ حقدار تھے، اس پر ہمیں استغاثہ اور عدلیہ کو سلام پیش کرنا چاہیے۔ انہوں نے تمام تر شواہد اور ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے مستقبل میں کرکٹرز کے لیے ایک مثال مرتب کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پاکستان کرکٹ کی ساکھ کو بہت دھچکا پہنچا ہے، بلکہ یہ نقصان تو اسی وقت ہو چکا تھا جب یہ خبر پہلی بار منظر عام پر آئی تھی۔ ہم اپنے چند بہترین کھلاڑی کھو چکے ہیں اور مجھے امید ہے کہ یہ فیصلہ نئے کھلاڑیوں کو زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کے لیے چور راستے اپنانے کی حرکتوں سے روکے گا کیونکہ اس کے نتیجے میں وہ اپنی عزت اور کیریئر دونوں سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کے سابق کپتان اور وکٹ کیپر راشد لطیف کا کہنا ہے کہ جسٹس قیوم رپورٹ کے فیصلوں اور ان کی سفارشات کو کوڑے کے ڈھیر میں پھینکا گیا اور ان پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کو یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے۔ اور مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ اب برطانیہ میں ہونے والے اس فیصلے کے بعد بھی پاکستان یا بین الاقوامی کرکٹ میں کچھ نہیں بدلے گا۔

کرکٹ بورڈ اب تک اس معاملے پر خاموش ہے اور ترجمان ندیم سرور کا کہنا ہے بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی جانب سے تمام بورڈز کو ہدایت کی گئی ہے کہ جب تک یہ معاملہ عدالت میں اس پر تبصرہ نہ کیا جائے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ اس قضیے کے حوالے سے آج انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ اور خود آئی سی سی تبصرے کر چکا ہے۔