ماہِ اکتوبر کا بہترین باؤلر کون؟

0 1,083

ماہِ اکتوبر اپنے اختتامی مراحل میں ہے اور کرکٹ کے لحاظ سے یہ بہت مصروف، بلکہ زبردست، مہینہ رہا۔ گزشتہ ایک ماہ میں دنیا کی کئی ٹیمیں ایکشن میں نظر آئیں اور گیند اور بلّے کے درمیان خوب مقابلہ دیکھنے کو ملا۔ اگر ایک مہینے میں مختلف گیندبازوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو بہت راحت محسوس ہوتی ہے کہ جدید دور کی وکٹوں سے بلے بازوں کو ملنے والے سہارے کے باوجود گیندبازوں نے آج بھی ہمت نہیں ہاری اور تمام تر مشکلات کے باوجود اپنا لوہا منوایا ہے۔

اگر ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو کہ ماہ اکتوبر کے لیے سب سے بہترین گیندباز کون سا تھا تو یقیناً یہ آسان فیصلہ نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ ہے انتہائی سخت مقابلہ۔ ایک طرف سری لنکا کے منجھے ہوئے اسپن گیندباز رنگانا ہیراتھ ہیں جنہوں نے ویسٹ انڈیز کے خلاف دو ٹیسٹ پر مشتمل سیریز میں 15 وکٹیں لیں اور اپنی ٹیم کی دو-صفر سے کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پھر پاکستان کے وہاب ریاض ہیں۔ انگلستان کے خلاف جاری سیریز میں وہاب 12 وکٹیں لے چکے ہیں اور پاک-انگلستان سیریز کا اب تک کا سب سے فیصلہ کن مرحلہ ان کی وجہ سے پاکستان کے حق میں گیا۔ وہ ایک مردہ پچ پر بھی شکار کرلیتے ہیں جہاں دیگر گیندباز ناکام رہتے ہیں۔ پھر پاکستان کے یاسر شاہ کو کیسے بھلایا جا سکتا ہے۔ وہیں گیندباز جس نے اپنی ابتدائی 50 ٹیسٹ وکٹیں محض 9 مقابلوں میں ہی لے لی تھیں۔ جن کے بارے میں دنیائے کرکٹ کے عظیم ترین اسپنر شین وارن کہتے ہیں کہ دنیا نے طویل عرصے سے ایک حقیقی لیگ اسپنر نہیں دیکھا اور یاسر میں پوری صلاحیت ہے کہ وہ دنیا کا صف اول کا گیندباز بن سکتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ شین وارن ان سے ملاقات بھی کرچکے ہیں۔ اب تک دو ٹیسٹ مقابلوں میں یاسر 22.50 کے اوسط سے 8 وکٹیں لے چکے ہیں اور دبئی میں انگلستان کی آخری وکٹ لے کر پاکستان کو سیریز میں ناقابل شکست برتری بھی انہوں نے ہی دلائی تھی۔

لیکن اکتوبر کی کارکردگی کو دیکھیں تو ایک باؤلر کی کارکردگی حیران کن ہے۔ ہوسکتا ہے آپ نے ابھی انہیں ٹھیک سے باؤلنگ کرتے دیکھا بھی نہ ہو لیکن جنوبی افریقہ کے 20 سالہ کاگیسو رباڈا بلاشبہ اس مہینے کے بہترین باؤلر قرار دیے جانے کے حقدار ہیں۔ بھارت کے خلاف بھارت میں جنوبی افریقہ کی تاریخی کامیابی میں رباڈا کا کردار مرکزی تھا۔ ایک روزہ سیریز میں 24.10 کے اوسط سے 10 وکٹیں لینے والے رباڈا نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی ہے۔

کانپور میں ہونےوالے پہلے ایک روزہ میں دنیا کے بہترین ‘finisher’ مہندر سنگھ دھونی کے سامنے رباڈا نے صرف 11 رنز کا دفاع کیا اور خود کو ثابت کر دکھایا۔ بھارت کو امید تھی کہ دھونی 20 سالہ گیندباز کو دھو ڈالیں گے لیکن رباڈا نے نہ صرف پہلی تین گیندوں پر صرف چار رنز دیے بلکہ چوتھی گیند پر دھونی کو آؤٹ بھی کیا۔ شاید مذکورہ بالاگیندبازوں میں سے کسی کا بھی آخری اوور میں دھونی سے سامنا ہو تو وہ ایسا بمشکل ہی کرپائے۔

ڈیل اسٹین اور مورنے مورکل جیسے خطرناک گیندبازوں کے سامنے رباڈا کو شاید کوئی خاطر خواہ اہمیت نہيں دے رہا تھا لیکن سیریز کے اختتام پر ان کا نام ہی سب کی زبانوں پر ہے۔ سیریز کے تیسر ے ایک روزہ کے سوا انہوں نے تمام مقابلوں میں اہم ذمہ داری نبھائی ہے خاص طور پر مورنے مورکل کے زخمی ہونے کے بعد 20 سالہ نوجوان نے سینئر کی عدم موجودگی کو محسوس نہیں ہونے دیا۔

اگر رباڈا کی گیندبازوں کو دیکھیں تو ہمیں گیند پر مکمل کنٹرول نظر آتا ہے۔ وہ جہاں چاہتے ہیں گیند پھینکتے ہیں، خطرناک باؤنسر پھینک سکتے ہیں اور پیر کو نشانے پر لے کر یارکر بھی مار سکتےہیں۔ صرف یہی نہیں ان کی رفتار بھی خاصی ہے۔ اس وقت وہ 150 کلومیٹر فی گھنٹے تک کی رفتار سے گیندبازی کررہے ہیں اور کوئی بعید نہیں کہ وہ جلد دنیا کے تیز ترین گیندباز بن جائیں۔

جنوبی افریقہ کے سابق باؤلنگ کوچ ایلن ڈونلڈ کہتے ہیں کہ ابھی رباڈا کی عمر صرف 20 سال ہے اور ابھی سے وہ پختہ دکھائی دیتا ہے۔ اگر اسی طرح کھیلتا رہا تو ایک طویل اور کامیاب کیریئر رباڈا کا منتظر ہوگا۔

رباڈا کی کامیابی کی راہ میں اگر کوئی چیز رکاوٹ بن سکتی ہے تو ان کو اسکولیوسز کا مرض ہے۔ یہ ایسی بیماری ہے جس میں کمر کا بالائی حصہ یا دائیں یا بائیں طرف موجود ہڈی ایک خاص حد تک مڑی ہوئی ہوتی ہے۔ خاص مشق اور علاج کے ذریعے اس پر قابو پایا جا سکتا ہے اور رباڈا خاصے پرامید ہیں۔

kagiso-rabada