ایک نہیں دو ملکوں سے کرکٹ کھیلنے والے

0 4,491

پاکستان سپر لیگ کے تیسرے سیزن کے خاتمے کے ساتھ ہی کیون پیٹرسن کے عہد کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ انگلش بیٹسمین نے اپنے تنازعات سے بھرپور کیریئر میں 277 انٹرنیشنل میچز کھیلے اور تقریباً 14 ہزار رنز بنائے۔ انگلینڈ کا واحد عالمی اعزاز ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سمیت کئی تاریخی اور یادگار کامیابیاں بھی "کے پی" کی مرہون منت رہی ہیں۔ لیکن چند تنازعات کی زد میں آ کر ان کا بین الاقوامی کیریئر بری طرح متاثر ہوا، یہاں تک کہ 2014ء میں آسٹریلیا کے خلاف ایشیز کھیلنے کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ سے ہمیشہ کے لیے باہر کردیے گئے۔ کیا آپ یہ بات جانتے ہیں کہ کیون پیٹرسن جنوبی افریقہ میں پیدا ہوئے تھے؟ آج بھی اگر وہ دوبارہ انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کی خواہش کا اظہار کریں اور جنوبی افریقہ میں کرکٹ کے کرتا دھرتا ان سے اتفاق کریں تو وہ 2019ء کا عالمی کپ جنوبی افریقہ کی طرف سے کھیل سکتے ہیں۔ ویسے تو اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اگر ہوا تو وہ ان کھلاڑیوں میں شامل ہو سکتے ہیں جنہوں نے دو ملکوں کی طرف سے کرکٹ کھیلی۔ وہ یہ کارنامہ انجام دینے والے پہلے کھلاڑی نہیں ہوں گے۔

بین الاقوامی کرکٹ قانون کے مطابق کوئی بھی کھلاڑی اسی صورت میں دوسرے ملک کی طرف سے کھیل سکتا ہے کہ اس کے پاس اس نئے ملک کی شہریت بھی ہو اور اسے پچھلے ملک کی طرف سے کھیلے ہوئے کم از کم چار سال گزر چکے ہوں۔

پہلے کھلاڑی

دو ملکوں کی جانب سے کرکٹ کھیلنے والے پہلے کھلاڑی البرٹ ٹروٹ تھے۔ وہ ملبورن، آسٹریلیا میں پیدا ہوئے اور 1895ء میں آسٹریلیا کی طرف سے تین ٹیسٹ میچز کھیل کر اپنے کیریئر کا آغاز کیا لیکن اگلے سال انہیں انگلینڈ کے دورے کے لیے منتخب نہیں کیا گیا، حالانکہ اُن کے بھائی ہیری ٹیم کے کپتان تھے بلکہ شاید وہی ان کی عدم شمولیت کی وجہ تھی۔ البرٹ دوبارہ کبھی آسٹریلیا کی جانب سے نہیں کھیل سکے۔ بعد میں انہوں نے انگلینڈ میں کاؤنٹی کرکٹ کھیلنا شروع کی اور 1899ء میں جنوبی افریقہ کے دورے پر انگلینڈ کی طرف سے دو ٹیسٹ میچز کھیلے۔ ان میچز میں ٹروٹ نے 17 وکٹیں حاصل کیں اور اس منفرد کلب کے تنِ تنہا رکن بن گئے۔


افتخار علی خان پٹودی

ان کے بعد دو ملکوں کی طرف سے کھیلنے کا اعزاز بھارت کے نواب افتخار علی خان پٹودی کو ملا۔ جب ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی تو نواب پٹودی 1932ء کے اس بدنام دورے کے لیے منتخب ہوئے تھے جسے آج 'باڈی لائن سیریز' کہا جاتا ہے۔ انہوں نے آسٹریلیا کے خلاف اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں سنچری بنائی لیکن سیریز کے خاتمے سے پہلے ہی دوسرے کھلاڑیوں کے ساتھ ان کا جھگڑا ہوگیا۔ شاید وہ نواب تھے اس لیے برداشت نہ کر سکے اور وطن واپس آ گئے۔ انگلینڈ کے لیے انہوں نے اپنا آخری ٹیسٹ 1934ء میں ٹرینٹ برج میں کھیلا اور اس کے بعد دوبارہ کبھی انگلینڈ کے لیے منتخب نہیں ہوئے۔ 12 سال بعد انہیں انگلینڈ کے دورے کے لیے ہندوستان کی ٹیم کا کپتان بنا کر بھیجا گیا جہاں انہوں نے تین ٹیسٹ میچز کھیلے۔ یوں وہ دو ملکوں کی طرف سے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے ہندوستان کے پہلے اور اب تک کے واحد کھلاڑی بنے۔


عبد الحفیظ کاردار

پاکستان کے پہلے کپتان عبد الحفیظ کاردار بھی ایسے ہی کھلاڑیوں میں شامل تھے۔ انہوں نے 1946ء میں ہندوستان کی جانب سے برطانیہ کا دورہ کیا تھا اور تین ٹیسٹ میچز کھیلے تھے۔ اگلے ہی سال پاکستان بن گیا۔ پاکستان کے پاس ٹیسٹ اسٹیٹس نہیں تھا اور یہی وجہ ہے کہ انہیں اپنے انٹرنیشنل کیریئر کی دوبارہ شروعات کے لیے 5 سال مزید انتظار کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ 1952ء میں پاکستان نے اپنا پہلا دورۂ بھارت کا کیا۔ پانچ ٹیسٹ میچز کھیلے گئے جن میں عبد الحفیظ کاردار نے پاکستان کی قیادت کی اور یوں دو ملکوں کی طرف سے کھیلنے والے کھلاڑی بھی بن گئے۔


45 سالہ ڈیبیوٹنٹ

زمبابوے کے جان ٹرائیکو کا معاملہ تو بہت ہی عجیب و غریب ہے۔ ان کے دو ٹیسٹ میچز کے درمیان ہمیں 23 سال کا فرق ملتا ہے۔ جنوبی افریقہ میں رہنے والے جان نے اپنا پہلا ٹیسٹ 1970ء میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلا اور اس کے بعد ٹیم سے ہمیشہ کے لیے نکال دیے گئے۔ وہ زمبابوے چلے گئے اور 1983ء میں زمبابوے کی طرف سے ون ڈے کیریئر بھی شروع کیا لیکن زمبابوے کو پہلا ٹیسٹ کھیلنے کا موقع 1992ء میں ملا۔ وہ دوبارہ ٹیسٹ اکھاڑے میں نظر آئے حالانکہ ان کی عمر 45 سال تھی۔ لیکن اس وقت بھی ٹرائیکو کی کارکردگی ایسی تھی کہ بھارت کے خلاف ٹیسٹ میں ایک اننگز میں 50 اوورز پھینکے اور 86 رنز دے کر پانچ وکٹیں حاصل کیں۔ جس میں سچن ٹنڈولکر کو صفر پر آؤٹ کرنا بھی شامل تھا۔


کیپلر ویسلز

نسل پرست حکومت کی وجہ سے جنوبی افریقہ پر بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے دہائیوں تک بند رہے۔ جب اسے اجازت ملی تو پہلے کپتان کیپلر ویسلز تھے۔ کیپلر نے آسٹریلیا کی جانب سے بھی کافی کرکٹ کھیلی تھی، بلکہ پورے 24 ٹیسٹ میچز کھیلے۔ بعد میں جب ساؤتھ افریقہ کو انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کی اجازت ملی تو ویسلز نے مزید 16 میچز اپنے آبائی وطن کی طرف سے بھی کھیلے۔ وہ پہلے کھلاڑی تھے کہ جنہیں دو ملکوں کی طرف سے ون ڈے کرکٹ کھیلنے کا اعزاز ملا انہوں نے اپنے 109 میں سے 55 میچز جنوبی افریقہ کی طرف سے کھیلے جبکہ آسٹریلیا کی طرف سے 54 ون ڈے کھیلے۔ پی ایس ایل کے تیسرے سیزن میں پشاور زلمی کی نمائندگی کرنے والے رِکی ویسلز اُنہی کے صاحبزادے ہیں۔


لیوک رونکی

نئے کھلاڑیوں میں سب سے نمایاں ہیں نیوزی لینڈ کے لیوک رونکی، جی ہاں! وہی جنہوں نے پاکستان سپر لیگ کے حالیہ سیزن میں خوب رونق لگائی اور سب سے نمایاں بیٹسمین رہے۔ رونکی نے 2008ء اور 2009ء کے درمیان آسٹریلیا کی طرف سے چار ون ڈے اور تین ٹی ٹوئنٹی کھیلے تھے لیکن اس کے بعد ہمیشہ کے لیے باہر کردیے گئے۔ رونکی پیدا تو نیوزی لینڈ میں ہوئے تھے لیکن 7 سال کی عمر میں اہل خانہ کے ہمراہ آسٹریلیا آ گئے تھے جہاں بہت عرصے تک رہے۔ لیکن انہوں نے اپنے بین الاقوامی کیریئر کا خاتمہ نیوزی لینڈ کی طرف سے کیا، وہی ملک جہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔ رونکی نے 81 ون ڈے اور 29 ٹی ٹوئنٹی میچز کے ساتھ ساتھ نیوزی لینڈ کی طرف سے 4 ٹیسٹ میچز بھی کھیلے، یہاں تک کہ بین الاقوامی کرکٹ چھوڑ کر خود کو لیگ کرکٹ کے لیے وقف کردیا۔ پاکستان سپر لیگ میں اس سال پہلی بار آئے اور آتے ہی چھا گئے۔


عمران طاہر بال بال بچ گئے

ویسے تو تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کی نمائندگی کئی ایسے کھلاڑیوں نے کی جو پہلے ہندوستان کی طرف سے کھیل چکے تھے لیکن عمران طاہر ایسے کھلاڑی ہیں جو جنوبی افریقہ کی طرف سے کھیلتے ہیں۔ وہ انٹرنیشنل کرکٹ میں تو پاکستان کی نمائندگی نہیں کر پائے لیکن انڈر 19 اور 'اے' ٹیم کے ساتھ ضرور کھیلے۔ عمران طاہر نوجوان تھے جب جنوبی افریقہ منتقل ہوئے اور وہاں بہترین کارکردگی دکھاتے ہوئے 2011ء میں قومی ٹیم تک پہنچ گئے۔ وہ اب تک 20 ٹیسٹ، 85 ون ڈے اور 36 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیل چکے ہیں اور سب کے سب جنوبی افریقہ کی طرف سے ہیں۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ عمران طاہر نے اپنا پہلا ٹی ٹوئنٹی مقابلہ لاہور لائنز کی طرف سے کھیلا تھا؟ فروری 2006ء میں کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں کراچی ڈولفنز کے خلاف یہ مقابلہ ان کا پہلا ٹی ٹوئنٹی تھا اور رواں سال اگر ملتان سلطانز فائنل تک پہنچ جاتا تو وہ اسی میدان پر ایکشن میں نظر آتے۔