آصف، طلعت اور شاہین کو منتخب نہیں کرنا چاہیے تھا

1 1,760

ویسٹ انڈیز کے خلاف آئندہ سیریز کے لیے پاکستان نے اپنے 15 رکنی دستے کا اعلان کردیا ہے اور توقعات کے عین مطابق اس پر پاکستان سپر لیگ کے تیسرے سیزن کی گہری چھاپ نظر آ رہی ہے۔ اسکواڈ میں چیمپیئن اسلام آباد یونائیٹڈ کے چار کھلاڑی شامل ہیں جن میں اپنی کارکردگی سے متاثر کرنے والے حسین طلعت اور آصف علی بھی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ لاہور قلندرز کے نوجوان باؤلر شاہین آفریدی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے محمد نواز اور راحت علی کے نام بھی نمایاں نظر آتے ہیں۔

چند کھلاڑیوں کی عدم شمولیت پر ہو سکتا ہے کچھ حلقوں کو اعتراض ہو لیکن مجموعی طور پر ایک عمدہ اسکواڈ تشکیل دیا گیا ہے لیکن یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کیا شاہین آفریدی ملتان سلطانز کے خلاف ایک میچ کی کارکردگی کی وجہ سے منتخب ہوئے؟ یا آصف علی کا انتخاب فائنل میں لگائے گئے تین چھکوں کی وجہ سے ہوا؟ نوجوان حسین طلعت پر بھی کہیں وقت سے پہلے بڑی ذمہ داری تو نہیں ڈال دی گئی؟ یہ سوالات بالکل حقیقی ہیں اور ان کے جواب میں نہ صرف پاکستان کرکٹ کی بہتری بلکہ ان نوجوانوں کا مستقبل بھی پوشیدہ ہے۔

پاکستان میں مقامی سطح پر مستقل کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کی عدم شمولیت کی روایت بھی بہت پرانی ہے اور ایک، دو مقابلوں کی کارکردگی پر بہت بڑی ذمہ داری گلے ڈالنے کا رواج بھی۔ شاید انتخاب میں یہی عدم تسلسل ہے جس کی وجہ سے قومی کرکٹ ٹیم بین الاقوامی سطح پر مسلسل اچھی کارکردگی پیش نہیں کر پاتی۔

آپ خود دیکھ لیجیے کہ عمران طاہر پاکستان میں رہتے ہوئے ایک بار بھی قومی ٹیم تک نہیں پہنچ پاتے، لیکن جنوبی افریقہ جاکر عالمی نمبر ایک باؤلر بن جاتے ہیں۔ مصباح الحق جیسا کھلاڑی ایک حادثے کے نتیجے میں کپتان بنتا ہے، وہ بھی ایسی عمر میں جب اکثر کھلاڑی ریٹائرمنٹ لے لیتے ہیں۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کے انبار لگا دینے والے 32 سالہ فواد عالم اپنا آخری ٹیسٹ 2009ء میں کھیلا تھا اور ثقلین مشتاق جیسا عظیم اسپنر 28 سال کی عمر میں محض چند مقابلوں میں ناکامی کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے باہر کردیا جاتا ہے۔

یہ سب پاکستان کرکٹ بورڈ کی کوتاہ بینی کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ محض چند ایک جھلکیوں میں کسی کھلاڑی کا اندازہ لگاتا ہے اور اس کی بنیاد پر ایک بڑا فیصلہ کر دیتا ہے۔ چاہے ان کھلاڑیوں کی شمولیت کا ہو یا عدم شمولیت کا جبکہ تسلسل کے ساتھ کارکردگی دکھانے والوں سے صرف نظر کیا جاتا ہے، شاید یہ سمجھ کر کہ اچھا کھیلنا ان کی عادت ہے، ڈومیسٹک ہی میں کھیلتے رہیں۔

بلاشبہ آصف علی، حسین طلعت اور شاہین آفریدی باصلاحیت بھی ہیں، لیکن قومی دستے تک پہنچنے کے لیے جو کڑا معیار مقرر ہونا چاہیے، جن کٹھن مراحل سے گزرنا چاہیے، وہ ابھی نہیں گزرے اور اس مرحلے پر انہیں اتنی بھاری ذمہ داری عطا کرنا خود ان کے کیریئر کے لیے نقصان دہ ہے۔ سوچیے کہ شاہین آفریدی پہلے ہی مقابلے میں چار اوورز میں 48 رنز دے دیتے ہیں تو کیا ہوگا؟ اس کا براہ راست اثر ان کے کیریئر پر پڑے گا اور جو قومی سلیکشن کمیٹی کی تاریخ ہے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پھر دوبارہ سالوں تک طلب نہ کیے جائیں۔ اس لیے جذباتی ان معاملات میں فیصلے جذبات کے بجائے عقل سے کرنے چاہئيں۔ کھلاڑی کو بین الاقوامی سطح تک پہنچنے سے پہلے ہر لحاظ سے آزمانا چاہیے اور اسی سطح پر تربیت کا اہتمام ہونا چاہیے تاکہ وہ کندن بن کر بین الاقوامی سطح پر میدان میں اترے۔

اگر بات صرف 'ایکسپوژر' ملنے کی ہے تو اب کسی نئے کھلاڑی کے لیے محض اس لیے پاکستان کرکٹ ٹیم تک پہنچنا ضروری بھی نہیں۔ پاکستان سپر لیگ میں ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کو کافی 'ایکسپوژر' مل رہا ہے۔ ملک کی نمائندگی جہاں ایک اعزاز ہے، وہیں ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے، جس کاندھے کو اتنا مضبوط ابھی بنایا نہیں گیا، اس پر اتنی بھاری بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔