پاک-آسٹریلیا کراچی ٹیسٹ: یہ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟

0 1,001

کراچی ٹیسٹ کے تیسرے دن جو ہوا اس پر تو یہی کہنا بنتا ہے:

یہ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ کب ہوا؟ کیوں ہوا؟ جب ہوا، تب ہوا، چھوڑو یہ نہ سوچو!

لیکن چھوڑیں کیسے؟ جو ہوا وہ بتانا ہی پڑے گا۔ ایک ایسا ٹیسٹ، بلکہ ایسی سیریز کہ جس میں اب تک باؤلرز آٹھ آٹھ آنسو رو رہے تھے، اس میں بالآخر ایک ایسا دن آ گیا جس میں 12 وکٹیں گر گئیں۔ ابھی کل ہی تو ہم کراچی میں آسٹریلیا کی دو دن تک جم کر بلے بازی پر پچ پر اعتراضات کر رہے تھے لیکن پھر مچل اسٹارک کی شاندار ریورس سوئنگ نے کراچی کی پچ پر آگ لگا دی، ایسی آگ جو اب بجھائے نہ بنے۔

آسٹریلیا دوسری اننگز میں صرف ایک وکٹ پر 81 رنز بنانے کے بعد اب پاکستان پر مجموعی طور پر 489 رنز کی برتری حاصل کر چکا ہے اور چوتھے دن کسی بھی وقت اننگز ڈکلیئر کر کے پاکستان کے بلے بازوں کی بڑے آزمائش کا آغاز کر دے گا۔

آسٹریلیا (پہلی اننگز) 556/9 ڈ
عثمان خواجہ160369فہیم اشرف2-5521
پاکستان (پہلی اننگز)148
بابر اعظم3679مچل اسٹارک3-2913
آسٹریلیا (دوسری اننگز)81-1
مارنس لبوشین3738حسن علی1-144

آسٹریلیا کے پہلی اننگز 556 رنز 9 کھلاڑی آؤٹ پر ڈکلیئر کرنے کے بعد پاکستان کی اننگز کے آغاز میں 13 اوورز تک تو کچھ ایسا نظر نہیں آیا، جو خطرناک ہو۔ لیکن پھر ایک غیر ضروری رن لینے کی پاداش میں اچانک عبد اللہ شفیق رن آؤٹ ہو گئے۔ اس کے باوجود پاکستان کے بیٹسمین سنبھلے نہیں بلکہ کھانے کے وقفے کے بعد امام الحق خود انتہائی غیر ذمہ دارانہ شاٹ کھیل کر اپنی وکٹ دے گئے۔

پھر مچل اسٹارک کا جادو چلا کہ جن کی ایک بہت باہر جاتی گیند کو چھیڑنے کی وجہ سے اظہر علی تیسری سلپ میں کیچ دے گئے اور اگلی اِن سوئنگنگ فل لینتھ گیند فواد عالم کے لیے واپسی کا پروانہ لے کر آئی۔ جنہیں ملا پہلی گیند پر صفر یعنی گولڈن ڈک!

کچھ ہی دیر میں رضوان وکٹوں کے پیچھے کیچ دے گئے اور یوں صرف 76 رنز پر آدھی ٹیم میدان سے واپس آ چکی تھی۔

باقی ماندہ کھلاڑیوں کے ساتھ بابر اعظم موجود تھے لیکن وہ بھی کچھ نہیں کر پائے بلکہ خود ہی انتہائی نامعقول شاٹ کھیل کر آؤٹ ہوئے۔ ایسے وقت میں جب سنبھل کر کھیلنے کی ضرورت تھی، ڈیبیوٹنٹ مچل سویپسن کو آگے بڑھ کر اونچا شاٹ لگایا جو آسان کیچ بن گیا۔ ان کے ساتھ پاکستان کے 9 کھلاڑی آؤٹ ہو گئے اور یہاں آخری وکٹ نے پاکستان کی سب سے بڑی 30 رنز کی شراکت قائم کی، جو باعث مسرّت نہیں بلکہ باعثِ شرم تھی۔

پاکستانی بلے بازوں کی اس کارکردگی کی بدولت پاکستان کو پہلی اننگز میں 408 رنز کا خسارہ ہوا، پہلی اننگز میں اتنا بڑا خسارہ تو پاکستان نے ٹیسٹ کرکٹ تاریخ میں کبھی نہیں کھایا۔

ویسے یہ آسٹریلیا کی وہی باؤلنگ لائن تھی جو پہلے ٹیسٹ میں 217 اوورز پھینک کر بھی پاکستان کی صرف چار وکٹیں حاصل کر پائی تھی، کراچی میں پاکستان کی بیٹنگ کو صرف 53 اوورز میں لپیٹ دیا۔ خاص طور پر اسٹارک کی باؤلنگ تو دیکھنے کے قابل تھی جنہوں نے صرف 29 رنز دے کر تین وکٹیں حاصل کیں۔

آسٹریلیا کی پہلی اننگز کے اسکور 556 رنز کے جواب میں پاکستان کا صرف 148 رنز پر آؤٹ ہو جانا حیران کن تھا لیکن اس سے بھی حیرت انگیز پیٹ کمنز کا پاکستان کو فالو آن پر مجبور نہ کرنے کا فیصلہ تھا۔ شاید وہ کراچی کی گرمی میں اپنے باؤلرز کو مزید تھکانا نہیں چاہتے تھے اور اس سے بھی بڑھ کر کہ یہ ان کے وہم و گمان میں کہیں یہ بھی ہوگا کہ اگر پاکستان نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیدا اور غیر معمولی کارکردگی کے ذریعے آسٹریلیا کو دوسری اننگز کے لیے میدان میں اتار دیا جو وہ اس وکٹ پر آخری دن ہر گز نہیں کھیلنا چاہیں گے۔ بہرحال، پاکستان کو صرف 148 رنز پر ڈھیر کرنے کے بعد تو آسٹریلیا کے باؤلرز واقعی آرام کے حقدار تھے۔

آسٹریلیا نے دوبارہ بلے بازی سنبھالی تو دن کے آخر تک 17 اوورز میں ہی 81 رنز بنا ڈالے، جو صاف ظاہر کرتے ہیں کہ پچ میں کوئی بارودی سرنگیں نہیں ہیں بلکہ یہ پاکستانی بلے بازوں کی سراسر نااہلی تھی جس کی وجہ سے وہ اتنے کم مجموعے پر ڈھیر ہوئے۔ بہرحال، عثمان خواجہ کو جاتے جاتے محمد رضوان کے ہاتھوں ایک زندگی ضرور ملی ہے، اب دیکھتے ہیں وہ اس کا کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

میچ کا چوتھا دن آسٹریلیا کی ڈکلیئریشن کا دن ہوگا کیونکہ وہ پاکستان کو آؤٹ کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ اوورز استعمال کرنا چاہے گا۔ پاکستان کے پاس اب فرار کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔