پاکستان تعاقب نہ کر سکا، آسٹریلیا فتح یاب

0 740

آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے سیریز کے پہلے مقابلے میں پاکستان کو 88 رنز کی بھاری بھرکم شکست ہوئی ہے جس کے ساتھ ہی آسٹریلیا کے ہاتھوں پاکستان کی شکستوں کا سلسلہ دراز ہو کر 10 مقابلوں تک پھیل گیا ہے۔

پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف آخری بار کوئی ون ڈے 2017ء میں جیتا تھا۔ یعنی جیت کا ذائقہ چکھے ہوئے تقریباً پانچ سال گزر چکے ہیں۔

لاہور میں سب کو انتظار تھا کہ پاکستان اس سلسلے کا خاتمہ کرے گا کیونکہ آسٹریلیا اپنے اہم ترین بلے بازوں اور باؤلرز کے بغیر کھیل رہا تھا۔ اس لیے عام تاثر یہی تھا کہ پاکستان کے پاس میچ جیتنے کا یہ سنہری موقع ہے لیکن یہ موقع تو دُور دُور تک دکھائی نہیں دیا۔

قذافی اسٹیڈیم میں ٹاس پاکستانی کپتان بابر اعظم نے جیتا اور کمالِ فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے آسٹریلیا کو کھیلنے کی دعوت دی۔ اس آسرے پر کہ شام میں اوس پڑنے کی وجہ سے باؤلنگ میں مشکل پیش آئے گی اور وہ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہدف کا آسان تعاقب کر سکیں گے۔ میدان میں اوس پڑی ہو یا نہ پڑی ہو لیکن پاکستان کے ارمانوں پر ضرور پڑ گئیں۔  آسٹریلیا نے بیٹنگ، باؤلنگ اور فیلڈنگ، تینوں شعبوں میں جیسے کھیل کا مظاہرہ کیا، جیت کے اصل حقدار وہی تھے۔

آسٹریلیا کا دورۂ پاکستان 2022ء - پہلا ون ڈے

پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا

نتیجہ: آسٹریلیا 88 رنز سے جیت گیا

آسٹریلیا 🏆313-7
ٹریوس ہیڈ10172
بین میک ڈرمٹ5573
پاکستان باؤلنگامرو
حارث رؤف80442
زاہد محمود80592

پاکستان225
امام الحق10396
بابر اعظم5772
آسٹریلیا باؤلنگامرو
ایڈم زیمپا100384
ٹریوس ہیڈ60352

آسٹریلیا کے اوپنرز کپتان آرون فنچ اور ٹریوس ہیڈ نے 110 رنز کا بہترین آغاز فراہم کیا۔ پاکستان کے باؤلرز کی ناکامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ 25 اوورز میں صرف 2 وکٹیں لے پائے، وہ بھی 171 رنز دے کر۔

یہاں اسپنرز نے رنز کے بہاؤ کو روکا اور حارث رؤف نے بھی عمدہ باؤلنگ کی جس کی بدولت پاکستان نے آسٹریلیا کو 313 رنز تک محدود کر دیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آسٹریلیا با آسانی 350 سے زیادہ کا ہدف دیتا۔

آسٹریلیا کے لیے سب سے نمایاں اننگز اوپنر ٹریوس ہیڈ نے کھیلی جنہوں نے صرف 72 گیندوں پر 101 رنز بنائے۔ انہوں نے پاکستان کے خلاف کسی بھی آسٹریلوی بیٹسمین کی تیز ترین ون ڈے سنچری بھی اسکور کی۔ ان کے علاوہ بین میک ڈرمٹ نے 55 رنز بنائے جبکہ آخر میں کیمرون گرین کے 30 گیندوں پر 40 رنز آسٹریلیا کو 300 کی نفسیاتی حد پار کرا گئے۔

پاکستان یہ میچ شاہین آفریدی کے بغیر کھیلا تھا، اور ان کی کمی بہت شدت کے ساتھ محسوس ہوئی۔ دونوں اسٹرائیک باؤلرز حسن علی اور محمد وسیم جونیئر بُری طرح ناکام رہے جنہوں نے اپنے 16 اوورز میں بغیر کوئی وکٹ لیے 115 رنز کھائے۔ حارث رؤف اور زاہد محمود نے دو، دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ ایک، ایک وکٹ افتخار احمد اور خوشدل شاہ کو ملی۔

اب پاکستان کو 314 رنز کے ہدف کا ہی نہیں بلکہ تاریخ کا بھی تعاقب کرنا تھا۔ اتنا بڑا ہدف گرین شرٹس نے کبھی لاہور تو کجا پاکستان کے کسی میدان پر حاصل نہیں کیا۔ یعنی اسے کئی ریکارڈ توڑ کر یہاں تک پہنچنا تھا۔

فخر زمان کے جلد آؤٹ ہو جانے کے بعد آدھی امیدیں تو ویسے ہی ختم ہو گئی تھیں۔

امام الحق کپتان بابر اعظم نے 96 رنز کی پارٹنر شپ نے میچ میں واپس آنے کا موقع پیدا کیا لیکن یہاں آسٹریلیا کے اسپنرز میچ پر چھا گئے۔ مچل سویپسن نے ایک گیند پر بابر کے خلاف ایل بی ڈبلیو کی اپیل کی جو بعد میں تہری اپیل میں بدل گئی کیونکہ کیپر نے گیند بھی پکڑ لی تھی اور اسٹمپڈ بھی کیا تھا۔ بابر نہ صرف ایل بی ڈبلیو سے بچے بلکہ گیند ان کے بلے سے بھی نہیں لگی تھی اور ان کا قدم بھی کریز کے اندر تھا۔ لیکن یہ گیند ان کو ایسا دھچکا پہنچا گئی تھی کہ جب انہوں نے سویپسن کی اگلی گیند کا سامنا کیا تو وکٹوں کے سامنے دھر لیے گئے اور پاکستان کی جیت کے امکانات مزید کم ہو گئے۔ بابر اعظم نے 72 گیندوں پر 57 رنز بنائے۔

تب پاکستان کو 155 گیندوں پر 194 رنز کی ضرورت تھی یعنی پاکستان کافی پیچھے تھا اور آخر تک پیچھے ہی رہا۔ وکٹیں گرنے کا سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ آخر تک رکنے میں نہیں آیا۔ سعودی شکیل 3، محمد رضوان 10، افتخار احمد 2 اور پھر امام الحق کی بڑی وکٹ جو اپنی آٹھویں سنچری بنانے کے بعد ایک والہانہ جشن منا کر آؤٹ ہو گئے۔

امام نے 96 گیندوں پر 103 رنز بنائے اور اس وقت آؤٹ ہوئے جب پاکستان کو 11 اوورز میں 110 رنز کی ضرورت تھی۔ اس کے بعد محض خانہ پُری تھی۔ پاکستان کی آخری وکٹ 225 رنز پر حارث رؤف کی صورت میں گری۔

آسٹریلیا کے باؤلرز خاص طور پر اسپنرز نے بہت عمدہ باؤلنگ کی۔ نہ صرف ایڈم زیمپا اور مچل سویپسن بلکہ ٹریوس ہیڈ نے بھی۔

زیمپا نے 38 رنز دے کر 4 وکٹیں لیں جبکہ سویپسن اور ہیڈ نے دو، دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

اب پاکستان کے بعد غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسے سیریز کے اگلے دونوں میچز جیتنے ہیں اور آسٹریلیا کے مسلسل دو میچز جیتنے کا کارنامہ اس نے آخری مرتبہ 2002ء میں انجام دیا تھا۔ جو کام 20 سال میں نہیں ہو پایا، کیا وہ اب ہو پائے گا؟ اس کے لیے بابر الیون کو بہت محنت کرنا پڑے گی۔

سیریز کا دوسرا ون ڈے جمعرات 31 مارچ کو اسی قذافی اسٹیڈیم پر کھیلا جائے گا، جہاں پاکستان کے پاس فرار کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔